نظام ساگر ڈیم ۔سلطنت آصفیہ کا عظیم کارنامہ
غلام احمد نائطی/ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
نظام آباد دکن کے نام سے ایک اہم تاریخی کتاب نظام دور حکومت کے ایک وکیل اور مورخ غلام احمد نائطی نے 1938ءمیں لکھی۔ نظام آباد اور دکن کی تاریخ سے متعلق یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اور نظام آباد کی تاریخ‘تہذیب‘ثقافت اور دیگر شعبوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ نظام دور حکومت میں نظام آباد سلطنت آصفیہ کے تحت ایک اہم ضلع تھا اور ضلع میں واقع نظام شوگر فیکٹری کے سبب بھی اس کی معاشی اہمیت تھی۔ شمال سے دکن میں داخلے کے لیے نظام آباد کے موضع بالکنڈہ کو باب الداخلہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ غلام احمد نائطی سے اس وقت نظام آباد میں بر سر کار عہدیدار جناب مرزا محمد بیگ نے خواہش کی تھی کہ وہ نظام آباد کی ایک جامع تاریخ مرتب کریں۔ اس فرمائش کو لے کر اور کچھ تاریخ مضمون سے دلچسپی کی خاطر غلام احمد نائطی نے آزادی سے قبل شہر نظام آباد کی ایک مبسوط تاریخ مرتب کی اس کتاب میں نظام آباد کا ہر لحاظ سے تذکرہ کیا گیا ہے۔
زیر نظرمضمون میں غلام احمد نائطی نے ضلع نظام آباد میں تعمیر ہونے والے اہم آبپاشی پراجیکٹ نظام ساگر کی تعمیر کے ضمن میں جو تفصیلات پیش کی ہیں پہلے ان کا ذکر کیا جائے گا بعد میں نظام ساگر سے متعلق موجودہ معلومات کو پیش کیا جائے گا۔ نظام ساگر کے تعلق سے غلام احمد نائطی نے اپنی کتاب میں جو تفصیلات پیش کی ہیں وہ شائد انگریزی میں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ غلام احمد نائطی کی کتاب '' نظام آباد دکن ''اردو کی مشہور ویب سائٹ "ریختہ" کے علاوہ ضلع نظام آباد کی معروف ویب سائٹ https://www.mynizamabad.com/ پربھی دستیاب ہے۔ جو سرچ میں نظام آباد ٹائپ کرنے پر دیکھی جاسکتی ہے۔
غلام احمد نائطی نظام ساگر کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ”نظام ساگر۔ ہندوستان کا ایک تاریخی مخزن آب ۔عہد عثمانی کا زرین کارنامہ۔ دریائے مانجرا مملکت آصفیہ میں ان تمام دریاﺅن سے عظیم تر ہے جس کا منبع اور دہانہ اسی ریاست میں ہے یہ دریا ضلع بیڑ سے نکلتا ہے جس کا منبع پاٹووہ ہے۔ جہاں سے 390 میل مسافت طے کرتا ہوا ہر سال ایک کثر مقدار میں پانی ملک سرکار عالی سے باہر پھینک دیا کرتا تھا جس سے چھ لاکھ ایکر اراضی فصل تری میں کاشت ہوسکتی ہے۔ اس مسئلہ پر کہ اس دریا سے کام لیا جائے اکثر مرتبہ غور کیا گیا۔لیکن کسی موزوں مقام پر نظر نہیں پڑتی تھی۔بہ زمانہ تعمیر مخزن آب”پوچارم“ غالباً سید نظام الدین مرحوم اوور سیر نے مسٹر سی پال کے سامنے بنجے پلی کے مقام کی نشان دہی کی۔مسٹر سی پال نے بعد معائنہ موقع اس کو آگے بڑھایا۔نواب علی نواز جنگ بہانے موقع کا معائنہ کرنے کے بعد موجودہ مقام کے محل وقوع کو منتخب کرکے کافی غور و فکر کے بعد اس عظیم الشان ساگر کی تعمیر کے لیے باب حکومت میں تحریک پیش کی۔باوجود اختلاف رائے کے نواب صاحب ممدوح کی انتہائی سعی نے محل وقوع کا معائنہ کرنے 1331ف میں نواب امین یار جنگ بہادر و نواب حیدر نواز جنگ بہادر کو مجبور کیا۔ بالاخر ہمارے دوربین و رعایا پرور ظل سبحانی حضرت خسرو دکن ہزمجسٹی میرعثمان علی خان خلد اللہ ملکہ و سلطنة نے مفاد ملک و رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے اس کو منظور فرمالیا۔
نقشہ و برآورد:مخزن آب کے نقشہ جات وبرآورد 1930 ءمیں مسٹر سی پال اکزیکٹیو انجینیر نے مرتب کیا۔ اور نہر کے نقشہ و بر آورد کو مسٹر سید عارف الدین اکزیکٹیو انجینیر نے 1333 ف میں ترتیب دیا۔ لیکن مختلف حالات نے نہر میں ترمیمات کی ضرورت پیدا کردی۔ آغاز و اختتام کار:مسٹر سی پال کے زیر نگرانی1924 ءاوائل 1333 ف میں اس کے کام کا افتتاح ہوا۔ اور اس کا سنگ بنیاد مہاراجہ سریمین السلطنت نے رکھا۔ مسٹر پال منبع کے بڑے حصے کی تکمیل تک ذمہ دار افسر اعلیٰ رہے۔جب آپ کو عہدہ نظامت پر ترقی ملی تو اپنا جائزہ مسٹگر یس جے تاراپور اکزیکٹیو انجینیر کو دے کر رخصت ہوئے۔اور 1340 ف میں اس عظیم الشان بند کا کام پایہ تکمیل کو پہونچا۔بتاریخ 25 ذی الحجہ35ء1344۔ ف روز دوشنبہ صبح حضرت بندگان اقدس و اعلیٰ نے اپنے دست مبار ک سے نظام ساگر کا افتتاح فرما کر اس فیض عثمانی کی نہر کو جاری فرمایا۔جس سے سالانہ گیارہ لاکھ (۱۱ لاکھ) نفوس کا ازوقہ زمین نظام آباد سے مہیا کرنے کی ذمہ داری اس ضلع پر گردانی گئی۔اور کروڑوں حیوان مطلق کے لیے آب و دانہ کا ذریعہ قائم کردیا گیا۔افتتاح کے موقع پر علیم صاحب نے جو نظم پڑھی تھی اس کے چند اشعار ہدیہ ناظرین کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا؎
میرے شہ نے نظام آباد کی دنیا بدل ڈالی
نہیں اس سرزمیں کا چپہ چپہ فیض سے خالی
ادب سے جب کیا معروضہ اظہار مسرت نے
دکھایا جوش جب اپنا رعایا کی محبت نے
ادا فرمائی رسم افتتاحی خود بدولت نے
کمال اوج آخر پالیا ساگر کی قسمت نے
رعایا دل سے ہے ممنون اس بندہ نوازی کی
تلطف کی عنایت کی کرم کی سرفرازی کی
کار معاوضہ:
مرزا محمد بیگ صاحب 39 ف سے اسپیشل آفسر معاوضہ کا کام انجام دے رہے تھے۔اور عہد عثمانی کے تمام خزائن آب کے کارہائے معاوضہ کو انجام دیا تھا۔نظام ساگر کے کارہائے معاوضہ کے لیے آپ ہی کو منتخب کیا گیا۔1343ف تک دفتر معاوضہ حیدرآباد میں رہے لیکن آپ نے رعایا کے لیے بے خانمائی کے مصائب اور پیروی کے لیے بعد مسافت کا خیال کرکے نظام ساگر کے مستقر کی منظوری حاصل کی۔ تعمیر نظام ساگر کے باعث جو نقصانات ہوئے ان کے اعداد حسب ذیل ہیں۔17 مواضعات سالم غرق آب ہوئے۔17 مواضعات کی منجملہ اراضی کے غرق آب ہونے کے علاوہ آبادیاں متاثر ہوئیں۔20 مواضعات کی مختص آبادی غرق آب ہوئی۔جملہ 45 مواضعات متاثر ہوئے۔ اور 5675 عمارات حاصل کی گئیں۔5145 مالکین مکانات اور 47948 مالکین زمینات کو 2981850 روپئے معاوضہ تقسیم کیا گیا۔923 افراد کو بالمعاوضہ اراضی موازی دلائی گئی۔25 جدید آبادیاں قائم کرائی گئیں۔ریاست میسور میں جو میوڑ پراجکٹ تعمیر ہوا ہے ان کے کارہائے معاوضہ سے متعلق یہاں مختصر اعداد کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ میٹ پراجکٹ میں 22 ہزار ایکڑ رقبہ غرق آب ہوا۔جس میں زیادہ حصہ خشکی اراضیات کا تھا۔معاوضہ کاروائی میں 30 لاکھ اور افسر اور عملے کی تنخواہیوں میں لاکھوں کی رقم کا صرفہ ہوا۔ کیوںکہ ۹ ڈپٹی کلکٹر معہ عملہ کے کارگزار تھے برخلاف اس کے یہان پر صرف ایک اسپیشل افسر نے مختصر عملے کے ساتھ اس قدر وسیع کاکم کر سر انجام دیا۔ ظاہر ہے کہ کس طرح شبانہ روز محنت شاقہ برداشت کرنی پڑی ہوگی۔دوران حال یہ کہ دورہ کرکے انفرادی طور پر ہر ایک کے حقوق کا تصفیہ اور نزاعی مقدمات کا انفصال عذراقت سماعت قلم بندی شہادت اراضیات انعامی میںوراثتوں کا تصفیہ حصہ داروں کے نزاعات اور بے خانماں رعایا کی آسائش و سہولت کے لیے جدید انتظامات بہر حال مرزا محمد بیگ صاحب نے وہ سب کیچھ کیاجو ایک حساس فرض شناس مدعی خدمت گزار سرکار کو کرناچاہئے تھا۔ ابھی اصابت رائے اور انتہائی توجہ کے ساتھ فرائض کی انجام دہی کا ثبوت ہے کہ ان کے فیصلوں کی ناراضی سے صرف ۲ مقدمات ہوئے جس میں سے ایک مخالف ایک موافق فیصل ہوا۔ پھر رعایا نے آپ کے پیچھے استبدادیت کا رونا بھی نہیں رویا۔کیوں کہ معاملات کو انتہائی سچائی سے کام میں لایا گیا۔اس سلسلہ میں زیر نہر کارہائے ڈیولپمنٹ کے آغاز کرنے کے لیے ارباب صدر کو آپ نے متوجہ کیا اور قواعد کو مرتب کرکے پیش کیا۔اسی وجہہ سے1339 ف میں آپ کا تقرر اسپیشل آفیسر تعلقداری نظام آباد پر عمل میں آیا۔ اور مہر 40 ف کو آپ ضلع نظام آباد کے تعلق دار مقرر کئے گئے۔
مزدور:
چونکہ یہ کام ملک کا سب سے بڑا تعمیری کام تھا اس لے مزدور اور سامان کی فراہمی کا خاص اہتمام کیا گیا۔چنانچہ مزدوروںکی تعداد جو بوقت واقعات تعمیر پر کام کر رہے تھے روزانہ اٹھارہ ہزار نفوس تک پہونچ چکی تھی۔جو مقامات کوئمبتور،مدراس، بجواڑہ، ترچنا پلی، سیلم،سری رنگم، کڑپہ،کرنول،نندیال،گنٹور،ڈورناچلم،تروپتی ،بمبئی و نیز اضلاع ملک سرکار عالی سے یہاں پر وارد ہوکر کام پر لگ گئے تھے۔سب سے پہلے مزدوروں میں مالاکنڈو،بتولا کنڈ وڈران کے قافلے آئے تھے۔
باربرداری:
باربرداری:
ابتدا میں اس گھنے جنگل اور کوہستانی مقام پر کام کرنے والے جانور گدھے تھے۔جن کی لاکھوں کی تعداد کام پر لگی ہوئی تھی۔تا آنکہ پل اور ترالی ریل تیار نہ ہوئی۔خصوصاً چونا موضعن رنجنی سے لانے میں جو 30میل کا فاصلہ تھا اس حیوان مطلق نے اپنی جان کاہی کا ثبوت دیا۔
مقدار مزدوری :
ہفتہ وار مزدوری دو لاکھ روپیہ تک تقسیم ہوا کرتی تھی۔
گتہ دار:
قابل ذکر گتہ دارون میں ایم جی مہک جی۔براتن جیون گانگا رام۔دامر رامیا۔وی نرسیا۔ بمبی موتی لال۔دیشواس۔جیا گنٹی راجنا۔سری رام بابو۔حبیب ہادی۔دیوا سنگھا چاری وغیرہ نے بند و نہر کا کام انجام دیا۔بند پر زیادہ تر آبانی میں کام ہوا۔دروازہ ہائے طغیانی نکسن فیلٹ کمپنی کے ذریعے بنائے گئے۔ اس مقام پر کام کرنے والوں کی صحت و آرام کا خیال خاص طور پر رکھا گیا۔بجز1333 ف کے انفلونزا کے جو تمام دنیا کو متاثر کیا تھا کوئی خاص متعدی مرض یہاں نہ آسکا۔اس لیے یہ مقام ایک شہر کی صورت اختیار کر گیا۔جس کی آبادی 21 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔جہاں ہر قسم کے اصول حفظان صحت کا خاطر خواہ انتظام تھا۔برقی روشنی ۔فلٹر کیا ہوا پانی۔طبی امداد۔تفریح گاہ۔مدرسہ بہرحال ہر اس چیز کو یہان کے باشندے آسانی سے پاسکتی تھے۔ جو ایک شہری زندگی میں ضروری تھا۔یہ تمام انتطام مسٹر سی پال کی خوش سلیقگی کا آئینہ تھا۔
سامان تعمیر:
بجز ناگزیر حالات کے تمام اشیا تعمیر علی نواز جنگ کی فکر رسا نے ملکی فراہم کرلیا تھا۔اور اہل ملک کے ہاتھوں یہ عظیم الشان تعمیر مکمل ہوئی۔کیونکہ انجینرسے لیکر وڈر تک سب اہل ملک سے تھے کسی یورپی یا بیرون ملک کے مشورہ کا بھی یہ مخزن آب منت پذیر نہیں رہا۔
کارگزار عہدیداران:
حسب ذیل عہدیداروں نے اس مخزن آب کی تعمیر کا فریضہ انجام دیا۔
نواب علی نوز جنگ بہادر چیف انجینیر
مسٹر سی پال اکزیکٹیو انجینر
مسٹر جے تارا پور اکزیکٹیو انجینیر
مسٹر شرف الدین اکزیکٹیو انجینیر
مسٹر سجاد مرزا اکزیکٹیو انجینیر
مسٹر سید دلدار حسین اکزیکٹیو انجینیر
مسٹر لائیق علی اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر این این ریڈی اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر ڈی ڈی ریڈی اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر ایس کے ایر اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر عظمت اللہ اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر فیارنگ نن اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر جی گوپالن اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر جے ڈوری دین پیمائش معاوضہ
مسٹر ریاض الدین اسسٹنٹ انجینیر
مسڑ فرخندہ علی اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر بالا پرشاد اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر ایم اشرف اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر عبدالستار اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر متنا اسسٹنٹ انجینیر
مسٹر اننت رام اسٹور آفیسر
مسٹر گاڈگیل خزانہ دار
مسٹر پدمنا مدلیار ریلوے
مسٹر وینکٹ سوامی ہیڈ اس مین
مسٹر سہسوان چاری محاسب
نادر نواز خان ڈاکٹر
مسٹرمحمد بیگ اسپیشل آفیسر پیمائشمعاوضہ
مسٹر غلام حیدر مددگار معاوضہ
مسٹر سیتا چلم مدلیار اکونٹ
مسٹر شیخ محمد یوسف مہتمم زراعت
اوور سیرز:
سخت ناانصافی ہوگی اگر ذیلی کام کرنے والون کے نام اس جگہ نہ بتلائے جائیں۔جنہوں نے بڑی محنت سے فرائض انجام دئیے۔
اوور سیران :
سید نظام الدین مرحوم ابتدائی سروے
مسٹر شیام راﺅ۔مسٹر راجو
مسٹر ارک سوامی
مسٹر ساجی رام۔مسٹر غفور
مسٹر عبداللہ شریف
مسٹر سری نواس
محمد یحٰی صاحب مہتمم گیٹ ہاﺅز
سوپر ویزران:
مسٹر وڈل پلے
مسٹر ناگیشور
مسٹر عبدالعزیز
مسٹر کے دین دیال
مسٹر رنگ نادم۔مسٹر موگسم مدلیار
مسٹرمحمد یوسف
مسٹر ست گرو پرشاد
مسٹر بہکوتی
مسٹر الپک
مسٹر کرشنا سوامی وغیرہ
فنی حالات تعمیر:
اس ساگر کا پختہ بند دو میل طویل ہے اور 14 فٹ عریض ہے۔جس پر موٹر رانی کے قابل سڑک تعمیر کی گئی ہے۔ یہ بند دنیا کے بڑے ثقیل المراکز بندوں میں شمار کیا جاتا ہے۔بند کو مستحکم بنیاد پر قائم کرکھنے کے لیے 24 ملین مکعب فیٹ مٹی کی کھدائی اور چٹانوں کی شکست و ریخت کرنی پڑی۔ بنیاد کی انتہائی گہرائی سطح زمین سے73 فیٹ ہے۔بنیاد کی انتہائی گہرائی سے بند کی بلندی150 فیٹ ہےاور ایسے عمیق مقام پر بنیاد کا زیریں حصہ 120 فیٹ رکھا گیا ہے۔اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ اگر ایک فٹ چوڑی اور73 فٹ اونچی دیوار سکندرآباد سے منماڑ تک بنائی جائے تو اس میں بھی تقریباً اسی قدر کار بندش ہوگا۔گویا سد سکندری سے بڑھ کر دریائے مانجرا کا رقبہ فراہم اب 8367 مربع میل ہے۔خزانہ آب میں پانی کی آمد جس وقت کے دریا میں طغیانی ہوتی ہے۔تو پانچ لاکھ پچیس ہزار مکعب فیٹ فی سکنڈ روانی ہوتی ہے۔جو دریائے نیل کی طغیانی کے برابر ہے۔اور لندن کے مشہور دریا ٹیمز کی طغیانی سے پچاس گنا زیادہ۔نظام ساگر کی گنجائش جب کہ تالاب کامل سمائی کی سطح پر ہوگا 27 ارب79 کروڑ 20 لاکھ مکعب فیٹ ہے۔ اور پانی کی انتہائی سطح پر یعنی جس وقت طغیانی کے دروازے انتہائی کام کریں گے۔اس وقت 35 ارب 6کروڑ ساٹھ لاکھ مکعب فیٹ ہوگی۔پانی کے پھیلاﺅ کا رقبہ خزانہ آب کے لبریز ہوجانے پر50 مربع میل و مانجرا کا طول بند تک چالیس میل ہے۔اور پانی کا عمق 106 فٹ ہے بندش میں اس بات کا خاص اہتمام رکھا گیا ہے کہ پانی کی کثیر ترین مقدار شدید طغیانی کے زمانہ میں چار لاکھ 72 ہزار مکعب فیٹ فی سکنڈ کے حساب سے فوراً خارج کی جاسکے۔اس کے لیے بائیں جانب 16 اور دائین جانب 28خود بہ خود کھلنے والے دروازے رکھے گئے ہیں۔ان میں سے ہر ایک دروازہ 40 فیٹ چوڑا اور 25۔5۔فٹ اونچا اور17۔ 25۔ ٹن وزنی ہے۔جو اپنے سے دوچند پلڑے سے آویزان ہے جس کو ایک کھٹکے کی گرفت سنبھالے ہوئے ہے۔جب پانی انتہائی سطح آب سے ۳ انچ بڑھ جاتا ہے تو وہ ایک چھوڑے سے مطرف میں سے گزرتا ہے جس کو میزان آب کہتے ہیں۔یہ میزان جب پانی کے وزن سے نیچے اترتی ہے تو کھٹکے کی گرفت کھول دیتی ہےتو وزنی پلڑا تیزی سے نیچے اترتا ہےاور ساتھ ہی اپنے برابر کے دروازے کے کھٹکے کی گرفت کھول دیتا ہے۔اس طرح توازنی پلڑی تیزی سے نیچے اترتا ہےاور ساتھ ہی اپنے برابر کے دروازے کی گرفت کھول دیتا ہے۔ اس طرح توازنی پلڑے نیچے کو اترتے ہیں اور دروازون کو بالاتصال یکے بعد دیگرے تیزی کے ساتھ کھولتے چلے جاتے ہین 30 سکنڈ کے اندر ہی یہ تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ x158۔ریتی صاف کرنے کے ۹ دروازے بھی ہیں اس مخزن آب کے شمال مشرقی حصہ سے نکالی گئی نہر ہے جس کا مجموعی طول1100 میل ہے۔پراجکٹ کی جملہ رقم بموجب بر آور سوا چار کروڑ سکہ عثمانیہ ہے۔جس کے منجملہ بند کی رقم تقریباً دو کروڑ ساڑھے بارہ لاکھ روپیہ ہے۔اور باقی دو کروڑ 12 لاکھ پچاس ہزار روپیہ نہر کی لاگت ہے۔ باوجود بند کی اتنی سنگینی اور نہر کی طوالت کے ہماری حکومت نے نہایت کفایت شعاری سے کام لے کر محض نواب علی نواز جنگ کی فکر و تنظیم کے سبب اس عظیم الشان اور بے نظیر کام کو صرف سواچار کروڑ میں مکمل کردیا۔
نظام ساگر کی تعمیر کے بارے میں یہ تفصیلات غلام احمد نائطی نے اپنی کتاب نظام آباد دکن میں فراہم کی ہیں۔ یہ سلاطین آصفیہ کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے سو سال آگے کی حکمت عملی کرکے کثیر صرفے سے اس طرح کے عوامی بھلائی کے عظیم کام انجام دئیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ نظام ساگر ڈیم میں دس گنا زیادہ ریتی جمع ہوگئی جس کی نکاسی کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے یہی وجہہ ہے کہ موسم برسات میں کم پانی جمع ہورہا ہے اور زیادہ پانی سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تلنگانہ اور قومی سطح پر جو قدیم ڈیم بنے ہیں ان کی مناسب دیکھ بھال کریں موسم گرما مین فاضل ریت کی نکاسی کا کام جنگی پیمانے پر انجام دیں تو عوامی فلاح کے یہ جو باندھ تعمیر کئے گئے ہیں ان سے حقیقی استفادہ ممکن ہے۔
***
No comments:
Post a Comment