احمدپریمی:
وہ اردو کا مسافر ہے یہی پہچان ہے اس کی
زبانیں نہ صرف ہماری شناخت ہوتی ہیں بلکہ معاشرتی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کی پاسداری بھی کرتی ہیں اوراس تہذیب کے نمائندےشعراء،ادباء ،افسانہ نگار، صحافی،اور محققین اپنے خون دل سے سینچ کر اس کی آبیاری کرتے ہیں جس کے عوض معاشرہ انہیں ایک مقام و مرتبہ عطاکرتاہے۔ زبان محض خیالات، جذبات اور معلومات کی ترسیل کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ تہذیب و تمدن کے فروغ و معاشرہ کی تخلیق میں بنیادی کردار بھی ادا کرتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی مادری زبان قومی ترقی میں موثرکردار ادا کر سکتی ہے۔ مادری زبان کے استعمال سے شرح خواندگی میں آسانی سے اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہماری مادری زبان جوخسروؔ کی پہیلی ، میرؔ کی ہم راز اور غالبؔ کی سہیلی ہونے کا اعزازرکھتی ہے۔جس پرپریم چند، کرشن چندر اور راجندرسنگھ بیدی ، تلوک چند محرومؔ، فراقؔ گورکھ پوری، ، جگن ناتھ آزادؔ، آنندنرائن مُلّا، کُنورمُہندرسنگھ بیدی سحرؔؔنے اپنی محبتیں نچھاورکیں ہیں۔حضرت داغ دہلوی نے اس زبان کی سارے جہاں میں دھوم ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔افسوس کہ آج ِ اسکی حیثیت کو گھٹاکر اسے ایک علاقائی زبان، کی طرح صرف اقلیتی مسلمان طبقے کی زبان کے طور پر نہ صرف پیش کیا جارہاہے بلکہ اس کے شعوری کوششیں بھی جاری ہیں۔ اردو کی ترقی و ترویج کے لیے حکومتی سطح پر بھی کسی قسم کے خاص اقدام نہیں اٹھائے جا رہے۔ جس کی وجہ یہ زبان زبوں حالی کا شکار ہے۔
ہزارمخالفتوں کے باوجود آج بھی اردو برصغیر کی نمائندہ زبان کی حیثیت رکھتی ہے جس کی خوبی یہ ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو شامل کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتی ہے۔
شہدوشکرسے شیریں اس زبان کےکئی گرویدہ ہیں۔
نظام آباد کے احمد پریمی بھی نہ صرف محب اردو ہیں بلکہ اس کے زلف گرہ گیر کے اسیر بھی ہیں۔سعودی عرب ہو یا دبئی یا پھر امریکہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں اردو کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔
جب سے اسیر زلف گرہ گیر ہو گیا
میں بے نیاز حلقۂ زنجیر ہو گیا
جاتا کہاں بھلا تری محفل کو چھوڑ کر
میں اپنے آپ پاؤں کی زنجیر ہو گیا
(قتیل شفائی)
احمد پریمی کی شہرت کے دو اسباب ہیں ایک اردو، دوسراچائے ۔
اردوزبان کی لذت کے ساتھ ساتھ لذت کام و دہن سےِبھی انہوں نے نظام آبادیوں کوخوب واقف کروایا۔1987ء میں ہوٹل شالیمار کا قیام عمل میں لاکر کھچڑی کھٹا قیمہ، نہاری پائے،اور بریانی کوانہوں نے ایک نئے انداز میں متعارف کروایا۔
ذائقوں کا کون دلدادہ نہیں؟
سابق وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف ، 2014 ءمیں جب دلی آئے تھے تو بڑی حسرت ویاس سے باربار پوچھ رہے تھے کہ کریم ہوٹل کہاں ہے ؟
اسی طرح جب کوئی چائے کا دلدادہ نظام آباد آتا ہے تو پوچھتا ہے کہ ہوٹل شالیمار کہاں ہے ؟
مرزا کہتے ہیں کہ دلی کی نہاری،ممبئی کا افلاطون،کلکتہ کا رس گلہ، آگرہ کا پیٹھا، حیدرآباد کی بریانی اور نظام آباد کی چائے شہرت رکھتے ہیں۔
احمد پریمی کا اصلی نام سیداحمد الدین ہے۔ وہ 7اکتوبر 1955ء کو سیدعبدالرحیم صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خلیل واڑی ہائی اسکول سے حاصل کی۔بعدازاں میسور یونیورسٹی،کرناٹک سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔بچپن سے ہی اردو سے لگاوتھا۔1976 ء میں نظام آباد کے ابھرتے ہوئے قلمکاروں کو لے کر "بزم اردوادب" قائم کی ۔ جس کے زیر اہتمام ہرماہ پابندی سے ادبی اجلاس ومشاعرہ ہواکرتے تھے۔دوستوں نے اردو سے ان کی محبت دیکھ کر ان کانام "احمدپریمی" رکھ دیا۔یہی نام ان کی شہرت کا سبب بنا۔
ینگ رائٹرزاکیڈمی کے فاوُنڈر سکریٹری رہے ہیں۔ نظام آباد کے مشہورادبی ادارہ،دائرہ ادب کی ایک عرصہ تک صدارت کی اورکئ ایک کل ہند کامیاب مشاعروں کا انعقاد عمل میں آیا ۔ ان مشاعروں میں ملک کے مشہورومعروف شعراء کرام نے شرکت کرکے نظام آباد شہر کو عزت بخشی۔جن میں کیفی اعظمی،خمار بارہ بنکوئی قابل ذکر ہیں۔
کئی اسپورٹس تنظیموں سے وابستہ رہے۔سوپراسٹار کرکٹ کلب کے صدر،نظام آباد ہاکی اسوسیشن کے صدر،نظام آباد باکسنگ اسوسیشن کے نائب صدر،رہنے کا بھی انہیں اعزاز حاصل ہے۔ فلاحی وملی تنظیموں سے آپ کی وابستگی رہی ہے جن میں قابل ذکر مسلم پرسنل لا ء کمیٹی، نظام آباد،عید گاہ کمیٹی،مدرسہ دارلعلوم، مسجد کوثرعلی انتظامی کمیٹی،ملااشرف مسجد کمیٹی،شامل ہیں۔
18سال تک نظام آباد ہوٹل اسوسیشن کےجنرل سکریٹری رہنے کا بھی انہیں شرف حاصل ہے۔
قوم وملت کی خدمت کے جذبہ کے تحت،1982ء میں عملی سیاست میں حصہ لیا اور تلگودیشم پارٹی کی رکنیت حاصل کی۔بعدازاں 1995تا 2005 ء تک بحیثیت کونسلربلدیہ، نظام آباد، بے مثال خدمات انجام دیں۔
2005ء میں امریکہ منتقل ہوگئے۔دیار غیر میں بھی یہ اردو کے چراغ جلائے ہوئے ہیں۔
وہ اردو کا مسافر ہے یہی پہچان ہے اس کی
جدھر سے بھی گزرتا ہے سلیقہ چھوڑ جاتا ہے
***
******
مضمون نگار: مجید عارف نظام آبادی
******
مضمون نگار: مجید عارف نظام آبادی
No comments:
Post a Comment