شریف اطہر
ملوگےاس سےتو چاہوگے روزملنےکو
ممتاز شاعر شریف اطہر کی شخصیت خود ان کے اس شعر کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔
ملو گے اس سے تو چاہوگے روز ملنے کو
وہ اپنے لہجہ میں اتنی مٹھاس رکھتا ہے
وگرنہ میں بھی بکھر کر کہیں نکل جاتا
ترا خیال مجھے آس پاس رکھتا ہے
بظاہرلاابالی سا نظر آنے والا یہ نوجوان خوش گفتار خوش مزاج و خوش فکر ہونے کے ساتھ ساتھ،اپنے اندر سوچ و فکرکا سمندر لئے پھرتا ہے۔نہ صرف اس کے اشعار گہری سنجیدگی و عقابی فکر کے غمازہوتے ہیں بلکہ بذلہ سنجی میں بھی وہ یدوطولہ رکھتاہے ۔جس کے لئے ایک الگ سے مضمون درکار ہے۔
آرمور ضلع نظام آباد کا ایک چھوٹاسا تعلقہ ہے اور ہندوستان کے نقشہ میں اسے ایک نقطہ کی بھی اہمیت حاصل نہیں ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اس چھوٹے سے تعلقہ کو اپنے ادبی تعلق کے بنا تین شخصیات نے شہرت عطا کی ہے ۔حمیدآرموری مرحوم،یعقوب سروش صاحب مرحوم اور یہ روشن خیال شاعرشریف اطہر۔
آرمور میں واقع رحمانیہ اسکول سے فارغ ہونے والے طلباء کی سوچ و فکر کو جلا بخشنے میں وہاں کے مخلص و مشفق اساتذہ کرام جناب مقصوداحمد صاحب، جناب نصیرالدین صاحب کا بڑا موثر رول رہا ہے ۔شریف اطہر،افضل الدین خالد،شفیع الدین ظفر اوراقم الحروف یہاں کے فارغ طلباء میں شمار ہوتے ہیں اور اس حقیقت سے بھی مجھے انکار نہیں ہم تینوں دوست جب کبھی بھی ملے شریف اطہرکی شخصیت اوراس کی شاعری کے حوالے سےگفتگو کے بغیرہماری نشست کا اختتام نہیں ہوا ہے۔
شریف اطہر نے علم کی لو بچپن میں ہی روشن کر رکھی تھی ہے۔ انہوں نے اپنی پہلی غزل اس وقت لکھی جب وہ پرائمری اسکول کے طالبعلم تھے۔بی اے بی ایڈ تک تعلیم حاصل کی، ۔پیشہ تدریس نہ اپنایا،اپنے ذوق کے مطابق آرکیٹکٹ میں ڈپلوماکیا اور بہترین آرکیٹکچر کے طور بھی جانے جاتے ہیں۔سرکاری زبان کمیشن حکومت آندھراپردیش کی جانب سے انہیں بہترین شاعر کا اعزاز عطا کیا ہے ۔ کئی ایک مشاعروں میں انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ ایک الگ شناخت بنائی ہے۔۔وہ جتنا پیارا شاعرہے اس کی شخصیت بھی اتنی ہی پیاری ہے۔بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر بشیربدر نے شریف اطہر کی شاعری کو ان الفاظ میں سند عطا کی کہ "اس نوجوان کی فکر توانااور خیالات میں ندرت ہے۔"
ملاحظہ ہو:
سدا بصورت صحرا نہیں رہونگا میں
تمام عمر تو پیاسا نہیں رہونگا میں
میں اپنے آپ کا ہونے سے یوں بھی ڈرتا ہوں
پھر اس کے بعد کسی کا نہیں رہونگا میں
شریف اطہر کی شاعری زندگی کی حقیقی کیفیتوں سے عبارت ہےانہوں نے اپنی نسل کے شعرا میں سنجیدہ ترین شاعرکی حیثیت سے اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے:
ہم نامراد مصر کے بازار سے گئے
یوسف جو بن گئے تو خریدار سے گئے
ارض وطن کی خاک سے رشتہ کو توڑ کر
پہنچے مہاجرین تو انصار سے گئے
خود پسندیوں نے چشم بصیرت ہی چھین لی
پھر یوں ہوا وسیلہ اظہار سے گئے
وہ اپنی شاعری میں ایسی فکرکا اظہار کرتے ہیں جو دوسروں میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔اور پڑھنے والے کو ایک فکری آسودگی بخشتی ہے۔ندرت خیالی اپنے ہم عصر شعراء میں انہیں ممتاز کرتی ہے۔ جذبات واحساسات پر
ان کی گرفت حیرت انگیز حد تک مضبوط ہے۔ان کی شاعری میں شریک موضوعات انتہائی حساس نوعیت کے ہیں۔ان کا تخلیقی اظہار موثراورقابل ستائش ہے ۔ انہیں کئی ایک مشاعروں میں بڑی پزیرائی ملی ہے۔
بنیادی طور پروہ غزل کے شاعر ہیں ان کے ہاں موضوعات کی کوئی قلت نہیں ہے ۔ان کی شاعری میں،زندگی پوری آب وتاب اورجمالیاتی حسن واعتماد کے ساتھ ان سے ہم کلام نظرآتی ہے۔
کچھ منتخب اشعار پیش ہیں :
بچھڑتے وقت دلاسہ مجھے وہ کیا دیتا
وہ جانتا تھا کہ زندہ نہیں رہونگا میں
یہ رنگ منچ کے کردار کتنے چھوٹے ہیں
چلے گا یوں ہی تماشہ، نہیں رہونگا میں
تو اب کی بار ملے گا تو خود ہی دیکھے گا
ترے گمان کے جیسا نہیں رہونگا میں
میں اپنی ذات میں ہوجاوں گر ستارہ بھی
کسی چراغ کو خطرہ نہیں رہونگا میں
زمانہ یوں ہی کرے گا جو رائگاں اطہر
کسی کہانی کا حصہ نہیں رہونگا میں
****
جنوں پسند طبیعت جو پائی ہئے تو پھر
یہ طے شدہ ہے کہ صحرا نورد ہونا ہے
ابھی کہاں ہے کوئی برگ و بار کا موسم
ابھی تو شاخ کے پتوں کو زرد ہونا ہئے
جو تیری راہ میں نکلے تو پھر انا کیسی
یہاں تو خود کو مٹانا ہے گرد ہونا ہے
زندگی جیسے سرابوں کا سفر ہو گویا
ہم جو دوڑے تو پیاس فقط پیاس ملی
کچھ بھی تو اب نہیں میسر میرے لیے
الفاظ کی قبا ہے نہ چادر میرے لیے
تعظیم کے لئے میرا جھکنا برا ہوا
ہر شخص ہوگیا ہے قدآور میرے لیے
عجیب بات ہے خالی گلاس رکھتا ہے
وہ ایک شخص جو صدیوں کی پیاس رکھتا ہے
ملو گے اس سے تو چاہوگے روز ملنے کو
وہ اپنے لہجہ میں اتنی مٹھاس رکھتا ہے
وگرنہ میں بھی بکھر کر کہیں نکل جاتا
ترا خیال مجھے آس پاس رکھتا ہے
***
******
مضمون نگار: مجید عارف نظام آبادی
******
مضمون نگار: مجید عارف نظام آبادی
No comments:
Post a Comment