ناظمِ اُردو: ڈاکٹر محمد ناظم علی - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

6.1.20

ناظمِ اُردو: ڈاکٹر محمد ناظم علی


ناظمِ اُردو: ڈاکٹر محمد ناظم علی


 بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے دور جدید میں اُردو زبان اور اہل اُردو اس 
لحاظ سے خوش نصیب رہے کہ اُردو بولنے والوں کی ایک قابل لحاظ آبادی آج موجود ہے۔ اور اردو زبان شعرو ادب کی محفلوں سے نکل کر علوم وفنون کی زبان بن گئی ہے ۔ اردو کے روزگار کے مواقع پید ا ہوئے ۔ پیشہ تدریس ‘کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اردو سے ملازمت کے مواقع ملے اور آج اردو کے نام پر اعلیٰ عہدوں پر فائز کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی خوش قسمتی کا یہ عالم ہے کہ یہ لوگ ہندوستان میں رہ کر ایک لاکھ روپئے سے زائد اُردو کے نام پر ماہانہ تنخواہ کمارہے ہیں جبکہ ایک صدی قبل اُردو والووں نے شاید کبھی یہ گمان بھی نہ کیا ہوگا کہ قلعے کی یہ ملازمت اُردو شاعروں کو ملنے والا پچاس یا سو روپئے کا ماہانہ وظیفہ اکیسویں صدی میں ایک لاکھ روپئے سے زائد ہوجائے گا ۔ اردو کے نام پر لاکھوں روپئے کا روزگار کمانے والے بیشتر لوگ اُردو کی خدمت نہیں کرتے لیکن ان میں کچھ لوگ اُردو زبان و ادب کے سچے ہمدرد ہے جنہیں ہمیشہ یہ احساس دامن گیر رہتا ہے کہ وہ جس زبان کی نام پر روزگار حاصل کرتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں وہ اس کی بقا ءاور فروغ کے لیئے جدوجہد کریں ۔ اردو کے ایک ایسے ہی سچے محب اُردو اور جذباتی قلم کار ڈاکٹر محمد ناظم علی ہیں جنہیں بلا شبہ ناظم اُردو کہا جاسکتا ہے وہ پیشہ تدریس سے وابستہ ہوکر ابتداً ءڈگری کالج کے لکچرار رہے اور گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ ضلع نظام آباد کے پرنسپل کے عہدے پر وظیفے پر سبکدوش ہوئے۔اردو کے زود نویس ادیب ہیں کم عمری میں ہی پانچ کتابوں کے مصنف بنے ۔ اردو کے ہر چھوٹے بڑے ادبی سیمنار میں شرکت کرتے ہیں اردو کے ادیبوں اور شاعروں کی صحبت میں رہکر اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں اور اپنے تجربات اور افکار کے ساتھ اپنے خیالات کو تحقیقی و تنقیدی ‘ مضامین ‘ تبصروں اور ادبی رسائل کے مراسلوں کے ذریعہ پیش کرتے ہیں۔ 

آئیے ایسے مجاہداردو اور ناظم اردو ڈاکٹر محمد ناظم علی کے علمی و ادبی سفر پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ اردو واولوں کو یہ احساس ہو کہ اردو کی بقاءکے لیے ضروری ہے کہ اردو سے وابستہ لوگ زیادہ جدوجہد کریں ۔ صرف نعرے بازی اور احتجاج سے کام نہیں ہوگا بلکہ عملی اقدامات بھی ضروری ہیں ۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی کے آباءو اجداد کا تعلق اردو کے شہر حیدرآباد سے رہا وہ محلہ یاقوت پورہ میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ مقیم رہے 11جنوری 1958ءکو محمد ناظم علی نے حیدرآباد کے علمی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ان کے والد محمد خواجہ علی حیدرآباد کی تہذیبی روایات کے امین رہے۔ ملازمت کے سلسلہ میں وہ ضلع نظام آباد منتقل ہوئے اور ایشیا کی عظیم فیکٹری نظام شوگر فیکٹری شکرنگر ‘ بودھن میں ملازمت اختیار کی چنانچہ محمد ناظم علی کی ابتدائی تعلیم و ہائی اسکول کی تعلیم شکر نگر کے گورنمنٹ بائز ہائی اسکول میں ہوئی جہاں سے انہوں نے 1974ءمیں اُردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے میٹرک کا امتحان کامیاب کیا ان کی تعلیم کی خاص بات یہ رہی کہ ان کے اکثر اساتذہ غیر مسلم تھے لیکن وہ اردو میڈیم میں تعلیم دیتے تھے ۔ جن میں قابل ذکر چندرشیکھر صاحب ‘ یادوراو صاحب ‘ پٹوڈی صاحب ہیں جبکہ دیگر مسلم اساتذہ میں یعقوب سروش صاحب ‘ نذیر صاحب ‘ اور حمید صاحب قابل ذکر ہیں ۔ یعقوب سروش صاحب نے تعلیم کے میدان میں ضلع نظام آباد میں نمایاں ترقی حاصل کی اور ضلع ایجوکیشنل آفیسر رہے ۔ محمد ناظم علی اعلیٰ تعلیم کے لیے حیدرآباد منتقل ہوئے چنچل گوڑہ حیدرآباد جونیر کالج کے 1977ءمیں انٹرمیڈیٹ کا امتحان کامیاب کیا ۔ 1980ءمیں انورالعلوم ڈگری کالج حیدرآباد سے BAکیا کالج میں انہوں نے ڈاکٹر مصطفی کمال صاحب سے اردو پڑھی۔ اور ڈاکٹر زور کے فرزند علی الدین قادری زور ‘ عبدالقدیر صابری صاحب اور شاہین میڈم ‘ افضل میڈم وغیرہ ان کے اساتذہ رہے ۔ محمد ناظم علی کو گھر سے اس بات کی اجازت ملی کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے آگے بڑھیں۔ حالانکہ وہ اپنے گھر کے بڑے فرزند تھے چنانچہ انہوں نے 1985میں اُردو پنڈت ٹریننگ کی اس کے بعد حیدرآباد میں قائم شدہ مرکزی یونیورسٹی ‘ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ایم اے کورس میں داخلہ لیا جہاں انہوں نے اپنے وقت کے قابل اساتذہ جن میں پروفیسر گیان چند جین ‘ ڈاکٹر مجاورحسین رضوی ‘ ڈاکٹر مغنی تبسم ‘ ڈاکٹر ثمینہ شوکت ‘ ڈاکٹر سیدہ جعفروغیرہ سے ادب کی تعلیم حاصل کی اور 1983ءمیں ایم اے اردو کامیاب کیا اس کے بعد یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے باوقار امتحان JRFکامیاب کیا جس پر انہیں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے خصوصی اسکالرشپ دی گئی ۔ انہوں نے حیدرآباد کے ادبی رسائل 1947ءکے بعد موضوع پر 1985ءمیں یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ایم فل ڈگری حاصل کی ۔ دوران تحقیق یہ ثابت کیا کہ حیدرآباد کا پہلا رسالہ کونسا ہے اور انہوں نے 1947ءتاحال حیدرآباد سے جاری ہونے والے تقریباً تمام ہی ادبی رسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے ہر رسالے کے پہلے شمارے کا عکس پیش کیا جو ان کا بڑا تحقیقی کارنامہ ہے جس سے آنے والے محققین کو راہ ملے گی ملازمت کی مصروفیتوں میں ابتداءمیں وہ پی ایچ ڈی نہیں کرسکے ۔ حالانکہ عثمانیہ یونیورسٹی میں انہوں نے پروفیسر آل احمد سرور فکر کے موضوع پر پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ کے زیر نگرانی داخلہ لے لیا تھا ۔ تاہم 2008 ءمیں اپنے تحقیقی کام کو مکمل کیا اس پر عثمانیہ یونیورسٹی نے انہیں اردو میں ڈاکٹریٹ ڈگری عطا کی ۔

ڈاکٹر محمد ناظم علی نے اپنے اس تحقیقی مقالے میں آل احمد سرور کا بحیثیت نقا دشاعر ادیب دانشور ‘ ماہر اقبال وغیرہ کے تحت جائزہ پیش کیا ۔او رلکھا کہ ٹی ایس ایلیٹ کی طرح آل احمد سرور نے بھی تنقید کے موضوع پر کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی لیکن وہ اپنے تنقیدی مضامین سے ہی اردو کے نامور نقاد قرار پائے اور یہ کہ آل احمد سرور کی تنقیدےںاُردو کے شعر و ادب کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہےں۔ ایک ایسے دور میں جب کہ صرف گریجویشن کی بنیاد پر لوگوںکو آسانی سے ملازمت مل جاتی تھی تاہم ڈاکٹر محمد ناظم علی جیسے قابل طالب علم کو ملازمت کے لیے زیادہ جدوجہد نہیں کرنا پڑا ۔ 1985ءتا 1987ءدوسال انہوں نے مدہوملنچہ ڈگری کالج شکر نگر میں اردو لکچرر کی خانگی ملازمت اختیار کی۔ ڈگری لکچرار کی سرکاری ملازمت کے لئے آندھراپردیش پبلک سروس کمیشن کا امتحان کامیاب کیا اور 15جولائی 1987ءکو ان کا تقرر بحیثیت سنئیر اردو لکچرار ناگرجنا گورنمنٹ کالج نلگنڈہ میں ہوا جہاں انہوں نے 1991ءتک ملازمت اختیار کی پھر ان کا تبادلہ گری راج گورنمنٹ ڈگری کالج نظام آباد میں ہوا جہاں وہ 1991ءسے 2010ءتک مسلسل 18سال خدمات انجام دیں۔ کالج میں شعبہ اُردو کے صدر رہے اور اکیڈمک کوآرڈینٹیر بھی رہے دوران ملازمت انہوں نے فروغ اردو کے لیے کئی خدمات انجام دیں۔ اردو کے ادبی جلسے سیمنیار وغیرہ کروائے جولائی 2010ءمیں انہیں پرنسپل ڈگری کالج مورتاڑ عہدہ پر ترقی ملی اور 2016ء میں وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ہیں۔ دوران ملازمت انہیں حکومت کی جانب سے کئی ایوارڈس بھی ملے اردو اکیڈمی آندھرا پردیش کی جانب سے 5ستمبر 1991ءکو بسٹ ٹیچر ایوارڈ ملا اسی طرح 5ستمبر 2009ءکو حکومت آندھراپردیش کی جانب سے انہیں بسٹ ٹیچر ایوارڈ ملا اور کل ہند تعلیمی کمیٹی حیدرآباد نے انہیں 2006ءمیں بسٹ ٹیچر ایوارڈ سے نوازا اور بعد میں بھارت ودیا شرومنی ایوارڈ اور بہترین ماہر تعلیم کا ایوارڈ نئی دہلی میں عطا کیا گیا ۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی نے گزیٹیڈ عہدے دار کے لیے لازمی امتحانات کامیاب کیے انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی عثمانیہ یونیورسٹی آف حیدرآباد اور مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی سے اردو کے ریفریشر کورسس اور اورینٹیشن کورسس مکمل کیئے ۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی اردو ادب کے ہونہار طالب علم رہے انہیں شاعری سے ذوق رہا۔ وہ روزنامہ سیاست کے کالم اردو کے نادر اشعار کالم میں حصہ لیتے رہے بعد میں ان کا رجحان نثر کی جانب ہوا اور وہ ادبی تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھنے لگے۔ ان کی اب تک دس کتابیں نمبر ایک آئینہ عصر ‘ 2005ء (۲) روح عصر 2006ء (۳) عکس ادب 2007ء حیدرآباد کے ادبی رسائل ازادی کے بعد 2010ء(۵) پروفیسر آل احمد سرور 2012ءاور ادبی وتہذیبی رپورتاژ2018 شائع ہوچکی ہے جن میں سے بیشتر کتابوں پر اردو اکیڈمی آندھرا پردیش اور تلنگانہ اردو اکیڈیمی نے ایورارڈ سے نوازا ۔

 ڈاکٹرمحمد نا ظم علی کئی ادبی ‘ سما جی ‘ و تعلیمی تنظیموں سے وابستہ رہے نظام آبادمیں قائم شدہ تلنگانہ یونیورسٹی کے وہ 2012سے سےنٹ ممبر ہیں۔اور ونیورسٹی کے ترقیا تی کا موں و پروگراوموں کے اجلاس میں شرکت کر تے ہیں۔وہ گری راج گورنمنٹ کا لج نظا م آبا د کے بو رڈ آف اسٹڈیز اردو کے رکن ہیں ۔ ڈاکٹرمحمد نا ظم علی کی تحریریں قو می و بین الاقوامی اخبارات و رسائل کی زینت بنتی ہیں ، خاص طور سے روزنا مہ سیاست ، روزنامہ منصف ، روزنامہ اعتماد ‘ آندھراپردیش میگزین‘ اردو دنیا نئی دہلی‘میں انکی تخلیقات شائع ہوتی ہیں ۔آل احمد سرور کی طرح وہ بھی ادبی مو ضوعات کو واضح اندز میں بیان کر تے ہیں ۔ وہ ادبی تحقیق میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔انہوں نے اپنے مراسلوں میں اردو تحقیق کے کئی مسائل کو اجا گر کیا ہے۔اردو دنیا میں پابندی سے ان کا تبصرہ شائع ہوتا ہے اسی طرح وہ جس ادبی محفل میں شرکت کرتے ہیں اس کی روداد رپورتاژکی شکل میں اخبارات میں شائع کرتے ہیں ۔ انہوں نے دوران تعلیم اور دوران ملازمت کئی ادبی سمیناروں میں شرکت اور بحیثیت ممتحن کئی اداروں سے وابستہ رہے اردو میڈیم اساتذہ کے تقررات کے ضمن میں 1988ءاور 1993ء‘1997ءمیں وہ ڈی ای او نلگنڈہ وہ نظام آباد کے انٹرویوں میں بحیثیت ممتحن شریک رہے حیدرآباد میں 2006ءمیں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کی اور NCERTکے ورکشاپ ”اردو ادب کی تاریخ “ میں 2002ءمیں شرکت کی پونے کالج مہاراشٹرا میں 2003ءمیں منعقدہ قومی سیمنار”مابعد جدیدیت اور اردو ادب “ میں شرکت کی ۔2005ءمیں ڈائرکٹر کالجس ایجوکیشن حیدرآباد کے ریفریشر کورس اور اردو میڈیم لکچررس کے تربیتی پروگرام میں شرکت کی 2007ءمیں دیگلور میں منعقدہ قومی سیمنار میں پریم چند اور اکیسویں صدی کا عہد موضوع پر مقالہ پیش کیا ۔

 اسی طرح نظام آباد میں منعقدہ قومی سیمنار میں اردو زبان کی تہذیب موضوع پر مقالہ پیش کیا اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد ناظم علی کی کئی تہذیبی سماجی خدمات ہیں ۔وہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے ساتھ اردو اسکالر اسوسیشن کے سرپرست ہیں جہاں اردو کے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیئے طلباءکی رہنمائی کی جاتی ہے ڈاکٹر محمد ناظم علی کے حالات اور ان کی علمی وادبی خدمات پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے وہ اردو کے ایک سرگرم کارکن اور فعال سپاہی ہے اور سبھی اردو والے ڈاکٹر ناظم علی کے نقشہ قدم پر چلے تو اردو کے روشن مستقبل کی ضمانت دی جاسکتی ہے ۔

 ہر ایک آواز اب اردو کو فریادی بتاتی ہے
 یہ پگلی پھر بھی اب تک خود کو شہزادی بتاتی ہے

 ****** 
 مضمون نگار:محمد محبوب ایم اے ایم فل ،ریسرچ اسکالر یونیورسٹی آف حیدرآباد ظہیرآباد

No comments:

Post a Comment