غلام نبی نصرتؔ شطاری :ماہرتعلیم، شاعروصوفی
کچھ رشتے خون سے بنے ہوتے ہیں توکچھ رشتے آسمانی ہوتے ہیں اور کچھ ایسے رشتے بھی ہیں جنہیں انسان خود بناتاہے۔ بعض اوقات انسان خونی رشتوں سے ذیادہ انسانی رشتوں کو عزیزرکھتا ہے۔ رشتوں کی ڈور بھی سانسوں کی ڈور کی طرح نازک ہوتی ہے۔انا کی سرکشی رشتوں کے وقار کو مجروح کرتی ہے۔جن میں انا نہ ہو جن کی گفتگو سے خلوص واپنائیت کی خوشبو آئے۔ایسے لوگ یقینا دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد بھی اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
مجھے یاد نہیں کہ غلام نبی نصرتؔ شطاری صاحب مرحوم سے کب اور کہاں ملاقات ہوئی تھی؟ جب میں ہائی اسکول کا طالبِ علم تھا اور میری نگارشات روزنامہ "رہنمائے دکن " کے کالم " طلباء ونوجوانوں کا صفحہ" میں مسلسل شائع ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت میری بہت ذیادہ حوصلہ افزائی کرنے والوں میں ،میرے استاذمحترم جناب سراج الدین صاحب (محکمہ ریلوے، وسابق ٹیچر فخرِ ملت اردو ہائی اسکول)و غلام نبی نصرت صاحب شامل تھے۔وہ میرے مضامین پر جہاں کھل کر تعریف کرتے وہیں خامیوں کی طرف بھی اشارہ کرتے۔ان کا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔سوچ میں ندرت تھی۔ان کا اندازِفکر مقابل کے لئے سوچ کے گہرے نقوش چھوڑتاتھا۔ادب ،سیاسیات ہو یا مذہب سیر حاصل گفتگو کرتے۔اپنی مثبت سوچ وفکر اور پیاری شخصیت کی وجہ سے انہوں نے اپنا وسیع حلقہ چھوڑا ہے۔
موٹر سائیکل کے ایک ایکسیڈنٹ میں میرے دونوں ہاتھوں میں فریکچرآگیاتھا۔جب انہیں یہ خبر ملکی تو مزاج پرسی کے لئے اپنے جگری دوست ،ڈاکٹر ایم اے حفیظ صاحب مرحوم(بھینسہ) کے ساتھ میرے غریب خانہ تشریف لائے تھے۔(ڈاکٹر ایم اے حفیظ بھی ہمیں اپنے چھوٹے بھائی کی طرح عزیز رکھتے تھے)۔عمر کے لحاظ سے بہت ذیادہ فرق کے باوجود وہ دوستانہ مراسم رکھنے کے خواہشمند تھے۔بذلہ سنجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔شگفتگی و مزاح کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ان کے انتقال کے دن ، جمیل نظام آبادی،احمدپریمی، اوسط نظام آبادی، تنویرواحدی (مرحوم) چکر نظام آبادی(مرحوم )اور راقم الحروف ان کی مزاج پرسی کے لئے اسپتال گئے توپوری شگفتگی کا مظاہرہ کیا۔ دلچسپ باتیں کیں۔اور اپنے اشعار بھی سنائے۔
آدمی کو فرشتہ بننے دیر نہیں لگتی۔۔۔۔۔
بقولِ شاعر:
بہت مشکل ہے آدمی کا انسان بننا۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان مٹی سے بنا ہے۔کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے سوندھی مٹی سے بنایا ہے۔اخلاص، اپنائیت،جذبہ ایثارسے گندھی یہ مٹی آدمی کو انسان بنادیتی ہے۔ اس مٹی سے بنے یہ لوگ اپنے کردار کے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔
غلام نبی نصرتّؔ شطاری مرحوم کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں سوندھی مٹی سے ہی بنایا تھا۔
انہوں نے شہر نظام آباد میں نصف صدی تک ناقابل فراموش تعلیمی خدمات انجام دی ہیں۔ آپ 8 سال کی عمر میں اپنے وطن موضع کامول، تعلقہ بھینسہ ،ضلع عادل آباد سے نظام آباد منتقل ہوئے تھے۔ اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی غلام نبی نصرت صاحب اپنے ساتھیوں کوٹیوشن پڑھایاکرتے تھے اس طرح ابتدائی دور ہی سے وہ درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ ہو گئے۔
1960ء میں نیشنل انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی اور 1966ء میں اس کو آگے بڑھاتے ہوئے ہائی اسکول کادرجہ دیا۔ جہاں سے لاکھوں طلباء زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوئےہیں۔آپ کے دل میں ملت کے نوجوانوں کے لئیے درد تھا، وہ آخری وقت تک ملت کے نونہالوں کوعلم کی دولت سے فیضیاب کرتے رہے۔
آپ استاد شاعر بھی تھے اور تخلص نصرت ؔفرماتے تھے۔ آپ کی شاعری کے موضوعات اصلاح معاشرہ اور شعور بیداری رہے ہیں۔
چنداشعار ملاحظہ فرمائیں:
دل سے نفرت کے اندھیروں کو مٹانا ہے
مجھے
پیار کا دیپ ہر اک دل میں جلانا ہے
مجھے
جب آپ ہیں ملاح خود اس کے کیا خوف تلاطم کشتی کو
طوفان کی اٹھتی موجوں سے ساحل کا نظارہ ہو جائے
تعلیمی اور ادبی میدان کے ساتھ ساتھ غلام نبی نصرت صاحب سیاسی میدان میں بھی متحرک تھے۔ قومی وملی فلاح و بہبود کے لئے آپ ہمیشہ پیش پیش رہے۔۔ آپ سلسلہ شطاریہ کی مشہور درگاہ صوفی نگر نرمل سے وابستہ تھے۔ اس خانقاہ کے مرید و خلیفہ بھی تھے اور درگاہ کے منتظم بھی۔ انہوں نے اپنی بے لوث خدمات آخری وقت تک بخوبی انجام دیں ۔
مختصر سی علالت کے بعدآپ نے جنوری 2002 کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے
۔
آپ کے ہزاروں شاگرد آج ملک وبیرون ملک ،اپنی خدمات انجام دے کر ملک و ملت کا نام روشن کررہے ہیں۔
ان کے دونوں فرزندان ذکی شطاری اورڈاکٹر رضی شطاری، مرحوم کی میراث کو بڑی خوش اسلوبی سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اردو،ادب اور تعلیم کے فروغ میں ان کے خدمات کی ستائش کی جارہی ہے ۔
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
******
مضمون نگار: مجید عارف نظام آبادی
******
مضمون نگار: مجید عارف نظام آبادی
Good to know about life and accomplishments of an important personality from Nizamabad.
ReplyDelete