تنویر واحدی : ہوسکے تو فکر وفن کی روشنی بن جایئے
اس وسیع و عریض دنیا میں بے شمار لوگ آئے دن پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اپنے مقررہ وقت پر زندگی کورخصت کرجاتے ہیں لیکن دنیا کے ان تمام لوگوں میں بہت ہی کم افراد ہوتے ہیں جنہوں نے اللہ رب العزت کی عطا کردہ زندگی کو اپنے مقصد کے حصول اور اپنے رب کی رضا کیلئے استعمال کیا ہو اور انہوں نے دنیا کو کچھ دیا ہو۔ لیکن چند لوگ ہی اپنی یادوں کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جیسا کہ کسی شاعر کا یہ شعر بہت خوب ہے کہ ؎
جاتے جاتے چھوڑ جاؤ اپنے قدموں کے نقوش
آنے والے قافلوں کے رہنما بن جاؤ
ٹھیک اس شعر کی طرح جناب تنویر واحدیؔ وہ شخصیت تھی جنہوں نے ادب کو معیار بخشا اور نئی نسل کواس سے واقف کروایا اور ادب کے ارتقاء و فروغ میں ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ جسے آنے والی نسلیں یاد رکھے گی۔ جناب تنویر واحدیؔ نے 1970ء کے دہے میں اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور ادب کے ایک خادم کی حیثیت سے مرتے دم تک اپنے فرض منصبی کو ادا کرتے رہے۔اردو شعر و ادب کی آبیاری میں اپنی عمر صرف کردی۔تنویر واحدیؔ ایک اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھے ناظم مشاعرہ بھی تھے۔
فن اور شخصیت:
۔سید عمر علی نام اورتنویر تخلص والد محترم کانام سید واحد علی صاحب تھا۔ والد کے نام کی مناسبت سے خود کو واحدیؔ لکھتے ہیں۔ تنویر واحدیؔ 25/اکتوبر1948ء کو نظام آباد میں پیدا ہوئے۔ پی یو سی تک تعلیم حاصل کی پھر سرکاری ملازمت سے منسلک ہوگئے محکمہ صحت ضلع نظام آباد میں کارگذار رہے۔ شعر و ادب سے فطری لگاؤ تھا۔ 1969ء سے مشق سخن جاری رہااور تادم آخر شاعری کرتے رہے۔ 31/اکتوبر 2001ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوگئے اور ان کا انتقال 21/نومبر2010ء کو ہوا۔
غزل کو اپنے احساسات،مشاہدات اور خیالات کے اظہار کیلئے اپنایا اور جدید شاعری کے دلدادہ تھے۔ روایات کادامن چھوڑنا بھی گوارا نہ تھااس طرح قدیم وجدید قدروں کے ساتھ ساتھ چلتے وہ تحت الفاظ میں شعر پڑھتے تھے مگر اس طرح کہ سامعین کو ان کا تحت میں پڑھنا بھی اچھا لگتا تھا۔وہ بیک وقت وہ دائرہ ادب، ادارہ گونج اور ادارہ ادب اسلامی شہر نظام آباد سے وابستہ رہے اور آخر وقت تک ادارہ ادب اسلامی ہند نظام آباد کے نائب صدرتھے۔ ضلع نظام آباد کی ادبی محفلوں میں تنویر واحدیؔ بحیثیت ناظم مشاعرہ فرائض انجام دیتے رہے۔ اللہ رب العزت نے انہیں گرجدار آواز سے نوازا تھا۔ نظام آباد میں استاد سخن کی حیثیت سے منفرد مقام رکھتے تھے اورفن خطاطی کے ماہر تھے۔ کئی طلباء نے ان کی خدمات سے استفادہ حاصل کیا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ”لفظوں کی آگ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔ تنویر واحدیؔ کو جاں نثار اخترؔ، خورشید احمد جامیؔ، شاذ تمکنتؔ، اوج یعقوبی ؔ، فیض احمد فیضؔ، احمدندیم قاسمیؔ، قتیل شفائی ؔ،احمد فراز ؔکے لب ولہجہ پسند تھا۔ تنویر واحدی ؔکی شاعری کی اٹھان سے ان کی ذات میں چھپی شاعرانہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوتاہے۔ تنویر واحدیؔ کی شخصیت نہایت ہی ملنسار،خوش اخلاق و دوست نواز تھی۔
تنویر واحدی ؔکو طالب علمی کے زمانے سے ہی افسانے اور کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔ جورہنمائے دکن اور روزنامہ ملاپ کے ادبی ایڈیشنوں میں شائع ہوتے رہے۔ تنویر واحدیؔ ایک بہترین خوشنویس تھے انہوں نے اپنے چچا حضرت سید محبوب علی صاحب سے خوشنویسی سیکھی۔ ادب میں انہوں نے شاعروصحافی حضرت مغنی صدیقیؔ صاحب کی رہنمائی حاصل کی۔ حضرت مغنی صدیقی ؔکے انتقال کے بعد حیدرآباد کے استاد سخن حضرت نظیر علی عدیلؔ سے رجوع ہوئے۔ ان کے دو شعری مجموعے لفظوں کی آگ1999ء اور کرب کا صحرا 2008ء میں منظر عام پر آئے۔ان کی ادبی خدمات کے عوض بہت سارے ایوارڈ و توصیف نامے اور اعزازات سے انہیں نوازاگیا۔ تنویر واحدیؔ کے ابتدائی دور کی غزلیات کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
غم فراق نہ لطف وصال لکھا تھا
نفس نفس میں ہمارے ملال لکھا تھا
جواب بن پڑا جس کا اہل دانش سے
ہمارے چہرے پہ ایسا سوال لکھا تھا
بتائیں کیا تمہیں تنویرکے مقدر میں
کہیں عروج کہیں پہ زوال لکھا تھا
تنویر واحدیؔ نے نہ صرف غزل گوئی کی بلکہ نعت گوئی میں بھی ان کی مہارت دیکھی جاسکتی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے سفر میں نعت کے اشعار بھی لکھتے تھے اور آپؐ سے اپنی والہانہ محبت کا اظہارکچھ اس طرح کیا ہے ؎
کاش ہو میری نگاہوں کو میسردیکھنا
رحمتہ العالمینؐ کا روئے انور دیکھنا
کتنی بار آخر مخاطب رب ہوا سرکارؐ سے
ابتداء تاانتہا قرآن پڑھ کر دیکھنا
بن کے رحمت ہی نہیں آئے ہیں دنیا کیلئے
شافع محشر بھی ہیں وہ روز محشر دیکھنا
آؤں طیبہ کو مگر پھر نہ وہاں سے لوٹوں
بس یہی دل میں ہے ارمان رسول عربیؐ
ذیل کے اشعار سے تنویر واحدی ؔکے فن کی پختگی کا اظہار ہوتاہے وہ نئی زمین میں غزلیں بھی کہی ہیں ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
شہر وفا میں اجنبی چہراکوئی نہ تھا
اپنا میں کہہ سکوں جسے ایسا کوئی نہ تھا
وہ مجھ کو یاد رکھے دسترس سے باہر ہے
میں اس کو بھول سکوں میرے بس سے باہر ہے
ہوسکے تو فکر وفن کی روشنی بن جایئے
یاد صدیوں تک رہے جو وہ صدی بن جایئے
زندگی میں کچھ ایسی الجھنیں بھی ہوتی ہیں
آدمی سے دانستہ لغزشیں بھی ہوتی ہیں
تنویر بے زبان کا اظہار دیکھنا
لفظوں کی آگ سے جلے اشعار دیکھنا
پانی میں عکس دیکھ کے خوش ہورہاتھا میں
پتھر کسی نے پھینکا تو منظر بکھر گیا
کتنا ہے گرم جھوٹ کا بازار دیکھنا
ملتا نہیں ہے سچ کا طلب گار دیکھنا
سوز دل سوز جگر سوز جہاں سوز حیات
دل میں تنویرؔ نے ہر دردکوچھپا رکھا ہے
تنویر واحدی ؔنے اپنی شاعری کے ذریعہ نوجوانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ؎
تو نے دیکھا جو خواب تازہ رکھ
دل میں اک انقلاب تازہ رکھ
گردش وقت کے سوالوں کا
پاس
اپنے جواب تازہ رکھ
امت مسلمہ کو پیار و محبت کا پیغام انہوں نے اپنے ان اشعار سے دیا ہے کہ ؎
چند اسباق محبت کو پڑھایاجائے گا
اس سلیقے سے زمانے کو سنواراجائے گا
اخلاص اور پیار کی دولت نہیں رہی
جیسے کسی کو اس کی ضرورت نہیں رہی
آنکھوں کے دریچوں سے کوئی جھانک رہا ہے
وہ در محبت جو میرے دل میں چھپا ہے
تنویر واحدیؔ نے اپنے شعری سفر کے آغاز سے لے کر تادم آخرشاعری کو دل سے لگاکر رکھا اور ادب کے ایک ادنیٰ خادم کی طرح شعر وادب کی خدمت کی۔نظام آباد کو ادبی حیثیت سے نہ صرف ریاست میں بلکہ ملک گیر شہرت دلانے میں تنویر واحدیؔ کابہترین رول رہا۔وہ نئے قلمکاروں کی ہمت افزائی کرتے اور انہیں مشاعروں میں شرکت کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ بحیثیت مجموعی تنویر واحدیؔ نے نظام آباد کے ادبی ماحول کو سنوارنے اور نکھارنے میں اپنے لہو سے آبیاری کی۔
بقول احمد فراز کے ؎
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
*******************
مضمون نگار:
ڈاکٹرمحمدعبدالعزیزسہیلؔ
No comments:
Post a Comment