ڈاکٹرعبدالعزیزسہیل:”رونق ادب“ کے آئینے میں
تلنگانہ کے اضلاع میں ایک اہم ضلع شہر نظام آباد بھی ہے جس کی بنیاد 1905ء میں عمل میں آئی۔ شہر نظام آباد کو تلنگانہ کے دیگر اضلاع کے مقابلہ میں خصوصی طور پر انفرادیت حاصل ہے اس لئے کہ ابتداء ہی سے اس علاقہ کو شاہانہ سرپرستی حاصل رہی ہے۔
شہر نظام آباد میں موجودمختلف ساگر اور نظام شوگر فیاکٹری وغیرہ یادگارِ زمانہ مقامات اس کی ترقی کا باعث بنے اسی طرح شہر نظام آباد اردو شعر وادب کے اعتبار سے بھی کافی زرخیز ثابت ہوا ہے بالخصوص آزادی کے بعد سے حیدرآباد کے شاعر و صحافی عبدالمغنی صدیقی کی آمد کے بعد سے وہاں چراغ سے چراغ جلے اور شعر وادب کی روشنی بڑھتی چلی گئی۔ سرزمین نظام آباد اور شعر وادب کی ترقی وترویج کے سلسلہ میں شاداب ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مقامی سطح پر یہاں تقریباً 10 اردو اخبارات نکلتے ہیں اور ایک انگریزی اخبار شائع ہوتا ہے جس میں شہر نظام آباد سے متعلق مختلف خبریں اور اطلاعات ہوتی ہیں جن سے لوگ استفادہ کرتے اور واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ یہاں اُردو شعراء وادباء کی ایک قابل قدر کثیر تعداد بھی اپنے اپنے لحاظ سے شعر وادب کی خدمات انجام دے رہی ہے، اس میں نوجوان شعراء وادباء کا بھی اہم کردار رہا ہے بطور خاص دو تین دہائیوں سے اس خاک سے اٹھے نوجوان ادیب و شاعر ادبی دنیا میں اپنی شناخت بنارہے ہیں اور اہل ادب کو اپنی طرف متوجہ کررہے ہیں ان میں ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیلؔ کا نام نامی بھی اہمیت کا حامل ہے۔ ادبی حلقوں کے لئے بلاشبہ ڈاکٹر موصوف کا نام محتاج تعارف نہیں ہے اس لئے کہ آئے دن ان کے مختلف مضامین مختلف اخبارات و رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں اور وہ مختلف سمیناروں میں اپنے تحریر کردہ مقالے پڑھ کر اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس پر بھی اپنی مختلف ادبی سرگرمیوں کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے مختصر عرصہ میں ان کی چھ کتابیں شائع ہوکر داد وتحسین کی مستحق قرار پائی ہیں جن میں سے چند کتابیں تو خصوصی طور پر تحقیقی مواد پر مشتمل ہیں۔ یہ سب دراصل ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل کا اردو زبان وادب سے جنون ہے جس کی بدولت ان کے یہ ادبی کام منظر عام پر آرہے ہیں۔ ورنہ خونِ جگر کے بغیر عشق ناتمام اور نغمہ سودائے خام قرار پاتا ہے۔
”رونق ادب“ ڈاکٹر عزیز سہیل کے تحریر کردہ مختلف رپورتاژ کا مجموعہ ہے اوریہ ان کی ساتویں کتاب ہے۔ رپورتاژ نگاری دراصل غیر افسانوی ادب کی ایک ایسی صنف ہے کہ جس میں قلم کار اپنے مخصوص اسلوب اور طرز تحریر کے ذریعہ زمانہ ماضی میں پیش آمدہ واقعات یا کسی ادبی اجلاس وغیرہ کے حالات وجزئیات کی خوبصورت منظر کشی کرتا ہے اور یہ صنف بلاشبہ ترقی پسند تحریک کی سرگرمیوں کی بدولت اردو ادب میں آئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رپورتاژ نگاری ایک اہم صنفِ ادب کا درجہ حاصل کرچکی ہے لیکن بعض دیگر اصناف کی طرح ابھی اس میں بحث ومباحثہ کی گنجائش موجود ہے، یہ اور بات ہے کہ اصنافِ ادب کے تحت محققین اور ادباء نے اس صنفِ ادب سے متعلق بہت سے باتیں لکھی ہیں جن میں واقعہ نگاری، منظر نگاری، کردار نگاری، جذبات نگاری اور جزئیات نگاری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ قلم کار کا اسلوب اس میں غیر معمولی دخل رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ اسلوب ہی قلم کار کی مخصوص شناخت کا ضامن ہوتا ہے، اس طرح منظر نگاری یا منظر کشی بھی رپورتاژ نگاری میں نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ شخص جو اس محفل، سمینار یا بزم واجلاس وغیرہ میں شریک نہ ہو اس کے سامنے پورا نقشہ آجاتا ہے اور پوری صورت حال اسے سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس میں جزئیات نگاری کے ذریعہ بھی غیر معمولی لطف پیدا کیا جاسکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ قلم کار یا رپورتاژ نگار اپنے مقصد سے ہٹنے نہ پائے۔ غرض اس کتاب میں شامل ابتدائی دومقالے نہایت تحقیقی ہیں جو یقینا لائق مطالعہ ہیں اور رپورتاژنگاری کے آغاز وارتقاء اور فروغ سے متعلق کافی معلوماتی ہیں۔ ان کے علاوہ باقی 24رپورتاژ اس مجموعہ میں شامل ہیں جن میں ڈاکٹر عزیز سہیل نے رپورتاژ نگاری کی خصوصیات کو ملحوظ رکھا ہے۔ ممکن ہے بعض کو رباطن اس کی اہمیت سے غافل ہوں مگر آئندہ زمانے میں جب کوئی مورخ یا محقق ادبی تاریخ اور شعر وادب کی صورتِ حال پر تحقیق کرے گا تو وہ اس مجموعہ میں بہت کچھ پائے گا۔ غرض ڈاکٹر عزیز سہیل نے اُردو کے اس ناسازگار دور میں ر پوتاژ جیسی افسانوی صنفِ ادب پر تحقیق کی اور اس کے عمدہ نمونوں کو زیر نظر مجموعہ میں شامل کیا ہے جو قابل قدر بات ہے۔
عصر حاضر میں شعری مجموعے حشرات الارض کی طرح منظر عام پر آرہے ہیں مگر معیاری، تحقیقی اور اہم کتابیں خال خال ہی شائع ہورہی ہیں۔ اسی طرح رپورتاژ نگاری کی طرف بھی قلم کاروں کی توجہ کم کم ہی رہی ہے۔ اس صنفِ ادب میں اور اضافہ چاہئے۔ایسے ناسازگاراور ناموافق حالات میں ان شاء اللہ ڈاکٹر عزیز سہیل کی یہ ”رونق ادب“ یقینا رونق ادب کا باعث ہوگی۔ میں اس خوبصورت، مختصر مگر اہم اور جامع رپورتاژ کے مجموعہ کی اشاعت پر ان کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اسی طرح اپنی ادبی سرگرمیوں کو جاری رکھیں گے اور اپنے ادبی شہ پاروں کی بدولت دنیائے ادب میں خوب ناموری حاصل کریں گے۔ مجھے امید ہے بلکہ یقین ہے کہ اہل ادب اس مجموعہ کا کھلے دل سے استقبال کریں گے۔
ڈاکٹرعزیزسہیل کی دیگرتصنیفات:
1. ادبی نگینے (ادبی تنقیدی ومعلوماتی مضامین) 2014ء
2. ڈاکٹر شیلا راج تاریخی و ادبی خدمات 2014ء
3. سماجی علوم کی اہمیت، مسائل اور امکانات 2015ء
4. میزانِ نو (ادبی تبصرے وتنقیدی جائزے) 2015ء
5. مولوی عبدالغفار حیات وخدمات 2016ء
6. دیارِ ادب (ادبی تنقیدی ومعلوماتی مضامین) 2016ء
7. رونقِ ادب (ادبی اجلاسوں کی رپورتاژ) 2017ء
8. فکرِ نو (ادبی تبصرے وتنقیدی جائزے) 2017ء
9. مضامین ڈاکٹرشیلا راج 2018ء
10. نظم و نسق عامہ میں ابھرتے رحجانات 2019ء
زیرِ طباعہ:
سفینہ ادب (ادبی تنقیدی ومعلوماتی مضامین)
*******
مضمون نگار: واحدؔ نظام آبادی، ایم اے،ایم فل، ٹرانسلیشن اسٹڈیز
No comments:
Post a Comment