مقیت فاروقی :ساری ہیں تجھ میں خوبیاں اردو زبان کی
سرزمین تلنگانہ ضلع نظام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان اور منجھے ہوئے افسانہ نگار مقیت فاروقی ہیں۔ جو پیشے سے صحافی ہیں اور روزنامہ اعتماد حیدرآباد دکن کے لیے نظام آباد سے نامہ نگاری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔مقیت فاروقی کا اصل نام محمد عبدالمقیت فاروقی اور عرف صابرؔ ہے۔ قلمی نام مقیت فاروقی کے نام سے صحافتی اور ادبی دنیا میں جانے جاتے ہیں۔مقیت فاروقی 29۔ جون 1964 ءکو نظام آباد میں پیدا ہوئے ان کے والدمحمد عبدالعزیز فاروقی مرحوم موظف سب رجسٹرار کے عہدے پر فائز رہے۔ نظام آباد میں ابتدائی تعلیم کے بعد مقیت فاروقی نے عثمانیہ یونیورسٹی سے 1987 ءمیں کامیاب کیا۔ انہوں نے شری گرو گوبند سنگھ کالج، ناندیڑ مہاراشٹرا سے ڈی سی اے کیا۔ 1989 تا 1992 , گورنمنٹ جونئر کالج بھینسہ میں جزوتی لیکچرر کے طور پر کام کیا۔پھر وہ سعودی عرب روانہ ہوئے جہاں دلہ کمپنی مکہ مکرمہ میں بہ حیثیت سپر وائزر ،1992 تا 1996 ملازم رہے۔وطن واپسی کے بعد اردو صحافت سے اپنے آپ کو وابستہ کرلیا۔
2001 سے 2006 تک وہ ہمارا عوام اخبار کے اسٹاف رپورٹر نظام آبادرہے۔ یہ اخبار کے ۔ایم۔ عارف الدین، مدینہ ایجوکیشن سنٹر حیدرآباد کی ادارت میں شائع ہوا کرتا تھا۔بعد میں مقیت فاروقی روزنامہ اعتماد سے وابستہ ہوگئے اور2006 تاحال اسی اخبار کے اسٹاف رپورٹر ضلع نظام آباد ہیں۔ مقیت فاروقی کے مشاغل میں نامہ نگاری، مطالعہ، سیاسی سماجی ادبی تبصرے و تجزیے تحریر کرنا، ادبی سیاسی سرکاری سرگرمیوں میں حصہ لینا شامل ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے ہی انہیں افسانہ نگاری کا شوق تھا ۔ ان کا پہلا افسانہ" کاش ایسا ہوتا"۔1987۔خاتون مشرق دہلی میں شائع ہوا۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ"احساس کی کرچیاں "کے عنوان سے2000 ءمیں شائع ہوا۔ اسی طرح ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ”آسمان تماشائی“ 2005 ءمیں شائع ہوا۔تلنگانہ کے افسانہ نگاروں کے افسانوں کے انتخاب پر مبنی کتاب ہر ذرہ ستارہ ہے (انتھالوجی) مرتبین :جناب رشید درانی؛ جناب یسئن احمد حیدر آباد 2006 میں مقیت فاروقی کے دو افسانے معہ تعارف شامل ہیں۔ مقیت فاروقی کے افسانے ملک کے مختلف رسائل اور اخبارات بیسویں صدی دہلی؛ ماہنامہ "پاکدامن دہلی، قومی زبان حیدر آباد،خاتون مشرق دہلی، گلابی کرن دہلی،ماہنامہ روپ رس بلگام کرناٹک،پیام اردو حیدرآباد،خوشبو کا سفر حیدرآباد،گونج نظام آباد اورروزنامہ اعتماد 'روز نامہ منصف وغیرہ میں شائع ہوتے رہے۔ مقیت فاروقی کو ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت تلنگانہ کے یوم تاسیس2۔ جون 2018 ءکو ریاستی سطح کا بیسٹ اردو جرنلسٹ ایوارڈ دیا گیا ۔
۔
تلنگانہ کے افسانہ نگاروں کے انتخاب”ہر ذرہ ستارہ ہے“ میں مقیت فاروقی کے دو افسانے گمشدہ راستے‘ اورپہچان" شامل کئے گئے ہیں۔ ان افسانوں کو پڑھنے سے مقیت فاروقی کی افسانہ نگاری کے فن پر مہارت کا پتہ چلتا ہے۔ افسانہ ”گمشدہ راستے“ میں مقیت فاروقی نے زندگی کو راہ پر ڈالنے کے لیے بیرون ملک ملازمت کرنے والوں کو ایک الگ زاویہ سے پیش کیا ہے۔ عام طور پر متوسط طبقے کے مسلمان مرد خلیجی ممالک جایا کرتے تھے تاکہ گھروں کی معاشی تنگی دور ہو اور خوشحال زندگی بسر ہو۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کچھ شعبوں میں خواتین بھی بیرون ملک گئی ہیں تاکہ اپنے گھروں کی زندگی بہتر ہو۔ خاص طور سے تدریس اور پیشہ طب سے وابستہ خواتین کی خلیجی ممالک میں مانگ تھی۔ اسی موضوع کو اپنے افسانے ”گمشدہ راستے“ میں مقیت فاروقی نے فنکاری سے پیش کیانے کے بعد اپنے انکل اسرار صاحب کے زیر نگرانی پرورش پاتا ہے ۔ محنت سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت ملتی ہے۔ اسرار صاحب کے مشورے پر اس کا رشتہ فردوس نامی لڑکی سے طے ہوتا ہے جو پیشے سے نرس ہے۔ شادی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ فردوس بیرون ملک ملازمہ ہے ۔ اور وہ اپنے گھر کی بہتری کی خاطر بیرون ملک ملازمت کا سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رکھنا چاہتی ہے۔ جنید کے منع کرنے کے باوجود فردوس بیرون ملک جاتی ہے ۔ سال میں ایک مرتبہ وہ کچھ دن کے لیے جنید کی زندگی میں خوشیاں بھرنے آتی ہے اور پھر اسے تنہا چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ ملازمت کی وجہہ سے وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ جنید کو گھر کی تنہائی کاٹ کھانے آتی ہے۔ کچھ سال یہی سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ پھر فردوس ہمیشہ کے لیے ملازمت چھوڑ کر اپنے وطن اپنے شوہر کے ساتھ رہنے آجاتی ہے۔ جنید بچوں کی آرزو لیے گھر کی دیوار پر خوبصورت بچوں کی تصاویر لٹکائے رکھتا ہے۔ فردوس جب وطن واپس آتی ہے تو دفتر جاتے ہوئے جنید فردوس سے دیوار پر لگی بچے کی تصویر صاف کرنے کے لیے کہتا ہے۔ ادھر فردوس کی طبعیت ناساز رہتی ہے وہ تصویر صاف کرنے کے دوران گر پڑتی ہے۔ اور تصویر کا فریم ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اس اشارے کو افسانہ نگار مقیت فاروقی نے فنکاری سے افسانے میں استعمال کیا ہے۔ کہانی کا انجام ملاحظہ ہو:
”درد کتنے دنوں سے ہے“۔ ” یہی کوئی تین چار ماہ سے“۔ کچھ لیا تھا؟ ہاں درد کی دوا لی تھی۔ میں ایک نرس ہوں۔فردوس کمزوری محسوس کر رہی تھی۔کتنی مرتبہ اسقاط کرواچکی ہو؟ تین دفعہ۔ وہ پریشان ہوگئی۔بات کیا ہے ڈاکٹر؟ ”دراصل مانع حمل گولیوں اور دواﺅں سے تمہارے یوٹیرس کو نقصان پہنچا ہے۔اور اب کافی دیر ہوچکی ہے۔ اس کا علاج صرف آپریشن ہے۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔فردوس کی آنسو نکل پڑے۔یہ کوئی بڑا آپریشن نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے رپورٹ اس کی طرف بڑھا دی۔ڈاکٹر کیا پھر ۔بچہ۔ نہیں اب تم ماں نہیں بن سکتی۔اس کا نکال دینا ضروری ہے۔۔۔۔ فردوس مرے مرے قدموں سے اپنے فلیٹ پہونچی۔اس نے دوسرے دن آپریشن کے لیے ڈاکٹر سے وقت لے لیا تھا۔جنید کبھی کا آفس سے آچکا تھا۔اور اس خوبصورت ننھے بچے کے خالی فریم اور گلاس کی کرچیوں کو دیکھ چکا تھا۔ صبح فردوس ہسپتال جانے کے لیے سامان پیک کر رہی تھی۔ادھر جنید بھی تیار ہورہا تھا۔فردوس تیاری کے بعد اس سے مخاطب ہوئی۔جنید کیا تم ہسپتال نہیں چل رہے ہو جنید نے ایک لمحہ بغور اسے دیکھا اور گویا ہوا۔ اب میرے راستے تمہارے راستوں سے جدا ہوچکے ہیں“۔
( ہر ذرہ ستارہ ہے ۔ افسانہ ۔گمشدہ راستے۔ ص ۔310)
افسانے کے انجام سے مقیت فاروقی نے خواتین کی ملازمت وہ بھی بیرون ملک مسائل کو فنکاری سے اجاگر کیا ہے۔ اکثر مرد اپنے گھر کو سنبھالنے کے لیے قربانی دیتا ہے۔ یہاں جنید کے منع کرنے کے باوجود فردوس ضد کرتی ہے اور شادی کے بعد بیرون ملک ملازمت جاری رکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔ وہ ماں بننے کے خوبصورت تجربے سے اپنے آپ کو محروم رکھتی ہے۔ جس کی سزا قدرت کی جانب سے اسے ملتی ہے اور جنید اس سے بے پرواہ ہوجاتا ہے۔ یہ افسانہ ہندوستانی متوسط گھرانوں کے اس مسئلے کو اجاگر کرتا ہے جس میں شادی کے بعد خواتین ملازمت کرکے اپنی گھریلو زندگی اور اپنی فطری زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ یہ افسانہ اس حقیقت کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ خدا نے مرد کو گھر کے باہر کام کرنے اور گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بنایا ہے تو عورت کو گھر کی ملکہ بنا کر اسے گھر چلانے کی ذمہ داری ہے اگر زندگی کے یہ دو پہیے فطرت کے مطابق کام نہ کریں تو زندگی کی گاڑی خوشیوں سے محروم ہوجائے گی۔
مقیت فاروقی کا افسانہ” پہچان“ فرقہ وارانہ تشدد کو ایک نئے ڈھنگ سے پیش کرتا ہے۔ راجو نامی نوجوان خوابوں کی نگری بمبئی میں ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہے۔ وہ مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ کہیں وہ راجو ہے تو کہیں منا ہے۔دوست کے سوال کرنے پر کہ اس کی پہچان تو راجو سے ہے کیوں وہ منا نام رکھ کر اپنی پہچان بھلا رہا ہے تب راجو کہتا ہے کہ یہ بمبئی ہے یہان جینے کا ڈھنگ کچھ الگ ہی ہے۔ پہچان کے تعلق سے راجو اور اس کے دوست کی گفتگو ملاحظہ ہو:
” وہ سب ٹھیک ہے میرے یار۔مگر تم ذرا سوچو تو اپنی شناخت کیوں کھونا چاہتے ہو۔اتنے ناموں کے ساتھ تم کیسے اپنے وجود کو منواﺅ گے۔تمہاری اپنی شناخت ممبئی کی گلیوں میں کہیں گم ہوچکی ہے۔مجھے یہ سب اچھا نہیں لگ رہا ہے۔میری تو یہ خواہش ہے کہ تم اس شہر میں اپنے اصلی نام سے جانے جاﺅ تمہارا اپنا نام تمہاری پہچان بن جائے۔انسان کو اس کی مسرت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔شائد تمہیں میری بات ناگوار گزرے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسان کی اپنی پہچان لسانی‘مذہبی اور تہذیبی بنیادوں پر بننا ضروری ہے۔وہ جس طبقے جس مذہب اور فرقے سے وابستہ ہوتا ہے اس کے اندر اپنے کلچر کی خصوصیات کسی نہ کسی حد تک محسوس کی جاتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے جتنے عظیم مفکر‘دانشور محققین ہیں ان کی پہچان اور شہرت ان کے ناموں سے وابسطہ ہے"۔
( مقیت فاروقی۔ افسانہ ۔ پہچان۔ مشمولہ۔ ہر ذرہ ستارہ ہے ۔ ص۔314)
اس کا دوست کچھ کام سے بمبئی آتا ہے وہ راجو کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک دن وہ اور راجو ٹیکسی میں سفر کرتے ہیں۔ کچھ دور جانے کے بعد ٹیکسی ڈرائیور کہتا ہے کہ وہ آگے نہیں جاسکتا یہاں دنگے چل رہے ہیں۔ دونوں ٹیکسی سے اتر جاتے ہیں تھوڑی دیر بعد کچھ بلوائی ان پر حملہ کردیتے ہیں۔ راجو سے اس کا نام پوچھا جاتا ہے۔ راجو اپنا نام راجو بتاتا ہے۔ بلوائیوں میں سے ایک شخص اسے منا کے نام سے جانتا ہے ۔ لیکن راجو کہتا ہے کہ وہ راجو ہے یہاں مذہب کے نام پر نام پوچھ کر خون خرابہ ہورہا تھا راجو پریشان رہتا ہے کہ اس پر حملہ کرنے والے کون ہیں وہ راجو کے نام پر اصرار کرتا ہے تو بلوائی اسے ہندوسمجھ کر چاقو مار کر ہلاک کردیتے ہیں۔ مرتے وقت پہچان کو لے کر راجو کی باتیں ملاحظہ ہوں:
” یہ ‘ یہ سب کیا ہوگیا میرے دوست۔میں تمہیں ہسپتال لے چلتا ہوں تم گھبرانا نہیں“۔ ” نا۔ راجو کے منہ سے الفاظ انتہائی کرب اور ٹوٹتے ہوئے ادا ہورہے تھے۔” اب اس کی ضرورت نہیں۔اپُن کا آخر ی وقت آچکا ہے۔لیکن یار۔اپُن نے اپنا نام صحیح بتایا ہے۔ اب اپُن کی پہچان ختم نہیں ہوتی نا"۔ وہ میرے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے کہتا رہا اور میرا جسم برف کی طرح سرد ہوتا جارہا تھا ۔میں رو رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ فرقہ وارانہ فسادات نے انسانوں سے انسانیت چھین لی ہے“۔
( مقیت فاروقی۔ افسانہ ۔ پہچان۔ مشمولہ۔ ہر ذرہ ستارہ ہے ۔ ص۔314)
مقیت فاروقی نے اس افسانے میں انسان کی پہچان کو بڑی فنکاری سے پیش کیا ہے۔ ہم سب اس دنیا میں اپنی شناخت اپنی پہچان کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں لیکن بمبئی جیسی نگری میں ایک سے زیادہ پہچان بھی انسان کے لیے ضروری ہے اور جرائم کی دنیا میں یہی ہوتا ہے کہ مجرم کا نام کچھ ہوتا ہے اور اس کی شناخت کچھ۔ فرقہ وارانہ فسادات میں نام پوچھ کر قتل کرنا بھی انسانیت کے لیے ایک بدنما داغ ہے۔ بنانے والے نے سب کو ایک جیسا بنایا سب کا خون ایک ہے وطن ایک ہے تو پھر مذہب کے نام پر تفریق کیوں۔ مقیت فاروقی کا یہ افسانہ فرقہ واریت کو اجاگر کرنے کی جانب ایک اچھی پہل ہے۔ جیسا کہ کہا گیا کہ مقیت فاروقی کے افسانے سرکردہ ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہے۔1990ءکی دہائی میں اردو افسانے کے فروغ میں رسالہ بیسویں صدی کافی مقبول تھا۔ برصغیر اور دنیا بھر کے افسانہ نگاروں کی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔ بیسویں صدی کا سالنامہ افسانہ نمبر کے نام شے شائع ہوتا تھا۔ 2002 ءکے افسانہ نمبر میں مقیت فاروقی کا افسانہ باد سموم شائع ہوا۔ رسالے کے مدیررحمٰن نیر کے نام مکتوب میں مقیت فاروقی شہر نظام آباد کی ادبی فضاءکے بارے میںلکھتے ہیں:
مکرمی جناب رحمٰن نیر صاحب السلام علیکم۔۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ آپ بیس پچیس سال قبل ایک مشہور بیڑی کمپنی کی اشتہاری فلم بنانے کے سلسلے میں شہر نظام آباد تشریف لائے تھے۔اب وہ لوگ تو نہیں رہے البتہ نظام آباد میں ادبی محفلوں کا انعقاد وقفہ وقفہ سے عمل میں آتا رہتا ہے۔جس میں ملک کے نامور شعرا ادبا شرکت کرتے رہتے ہیں۔نوجوان نسل زرخیز ہے۔ان شاءاللہ ایسی کسی محفل میں شرک کے لیے آپ کو زحمت دی جائے گی۔ آپ کا مخلص۔مقیت فاروقی“ ( مقیت فاروقی۔ بیسیوں صدی افسانہ نمبر۔ستمبر۔2002ء ص۔81)
افسانہ "باد سموم" ایک سماجی افسانہ ہے۔ جس میں جہیز کے نام زبیدہ نامی لڑکی کو مار دئیے جانے اور اس کے بعد اس کی بہن اسماءکے شادی سے انکار کے نفسیاتی پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔ زبیدہ کے سسرالی لالچی تھے۔ مزید جہیز کی مانگ پوری نہ ہونے پر زبیدہ کو ما ر دیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کا اثر زبیدہ کی بہن اسماءپر بہت گہرا ہوتا ہے اور وہ کئی سال تک شادی سے انکار کرتی رہی ۔ لیکن زمانے کے مزاج کے مطابق اسے شادی کے لیے راضی کیا جاتا ہے۔اس ضمن میں افسانہ نگار سماج کے خیالات کو یوں بیان کرتا ہے۔
" بیٹی ! تمام عمر تو ہم تمہیں اپنے پاس بٹھا کر نہیں رکھ سکتے۔ یہ جو سماج کے اصول ہیں ۔ بھلا ہم ان سے کیسے منہ موڑ سکتے ہیں۔ہم تمہاری محبت میں چپ ہو بھی جائیں لیکن سماج کی انگلیوں کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ حقیقت سے واقفیت کے باوجود لوگ ہمیں ہی بدنام کریں گے۔کبھی نہ کبھی تو تمہارا بیاہ رچانا ہی ہے۔لیکن اس بار ہم کوئی فیصلہ جلد بازی میں نہیں کریں گے۔ہر طرح سے مطمئن ہونے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ذکیہ بیگم نے تفصیل سے سمجھایا تو اس نے خاموشی اختیار کر لی"۔
افسانے میں تجسس کا موڑ اس وقت آتا ہے جب اسماءکی شادی جاوید نامی نوجوان سے ایک سنجیدہ گھرانے میں ہوجاتی ہے۔ جب جہیز کا سامان اتارا جاتا ہے۔ اس وقت کا منظر ملاحظہ ہو:
" اسماءکو کمرے میں پہونچایا گیا۔ملازم ٹرک سے جہیز کا سامان اتار کر مکان میں لانے لگے۔ زیبا خاتون اور اصغر کی نظریں حیرت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔اسی دوران ایک ملازمہ نے ایک اٹیچی اسماءکے سپرد کی۔زیبا خاتون نے اسماءسے سوال کیا۔ اس میں کیا ہے دلہن۔اصغر صاحب بھی وہیں کھڑے ہوئے تھے۔اسماءنے کوئی جواب نہیں دیا۔دوبارہ استفسار پر آہستگی سے اٹھ کر اٹیچی کھول دی۔یہ ۔۔ یہ کیا ہے۔۔ ساس اور سسر نے حیرانی سے اسماءسے پوچھا ان کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ اس اٹیچی میں مٹی کے تیل کا ڈبہ اور دیا سلائی رکھی ہوئی تھی۔کچھ دیر اسماءخاموش انہیں دیکھتی رہی۔ اور پھر بڑے ہی نرم لہجے مین اپنے لب کھولے۔” یہ وہ حد ہے کہ آپ حضرات کو جہیز میں کمی محسوس ہو تو یہ بھی آپ کے کام آسکے"۔
(مقیت فاروقی۔ افسانہ باد سموم ۔بیسویں صدی ۔ ستمبر 2002 افسانہ نمبر ص۔83)
اس طرح افسانہ نگار نے جہیز کی لعنت کو ایک انوکھے طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی۔ اسماءکے ساس سسر حیرت سے یہ سب دیکھتے رہے اور انہوں نے کہاکہ ایسا کچھ نہیں ہوگا بیٹی۔میں بھی برسوں قبل اس گھر میں بیاہ کر آئی تھی۔ اور آج بھی زندہ ہوں تم یہ سامان اپنے گھر بھیج دو اور خوش رہو“ افسانے کے اس مثبت انجام سے مقیت فاروقی نے اپنے افسانے کو اصلاحی رنگ دیا ہے۔ جہیز میں خود کو جلانے کا سامان لانا لڑکی کی ہمت اور اس کی نفسیاتی کشمکش کو ظاہر کرتا ہے۔متوسط طبقے کے مسلم سماج میں جہیز کے نام پر لڑکیوں کو جلانا اور ان پر مظالم عام ہیں اس جانب یہ افسانہ ایک چوٹ کرتا ہے۔مجموعی طور پر مقیت فاروقی کے افسانے سماجی اصلاح کے حامل ہوتے ہیں۔ انہون نے ایک فنکار کی طرح اپنے عہد کے سماجی مسائل پر گہری نگاہ ڈالی۔ اور انہیں افسانے کے روپ میں فنکاری سے پیش کرتے ہوئے مسائل کی عکاسی اور ان کے حل کی کوشش کی۔
مقیت فاروقی نے افسانے کی تکنیک کو بہ خوبی برتا ہے مکالموں‘تجسس اور کردار نگاری کے اچھی مثالیں ان کے افسانوں میں ملتی ہیں۔ مقیت فاروقی مجموعی طور پر اب صحافت سے جڑ گئے ہیں اگر وہ افسانہ نگاری کا سلسلہ جاری رکھیں تو نظام آباد اور تلنگانہ ہی نہیں بلکہ وہ اردو کے ایک اچھے افسانہ نگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
*****
از: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی، صدر شعبہ اردو، این ٹی آر ڈگری کالج،محبو ب نگر
مقیت فاروقی صاحب تسلیمات!!
ReplyDeleteڈاکٹر اسلم فاروقی صاحب کا آپکی فن و شخصیت پہ لکھا مضمون۔ "ساری ہیں تجھ میں خوبیاں اردو زباں کی"پڑھنے کو ملا آپ صحافت کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے لیے جو بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں وہ لایق قدر و احترام والا کام ہے
آپکی ادبی،سیاسی۔ سماجی حالت پر گہری نظر ہے،
تبصرے،تجزیے،تحریر کرنا ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا ان سب میں آپ کہنہ مشق ہوتے جارہے ہیں۔اور سب سے بڑی بات آپ ہمارے پیارے اخبار "اعتماد" کے اسٹاف رپورٹر کی ذمہ داری بھی بخوبی انجام دے رہے ہیں،
میری جانب سے آپکی اردو ادب،اور صحافت کی عمدہ کارکردگی پر مبارکباد قبول فرمائیں،میری نیک خواہشات و نیک تمنائیں ہمیشہ آپکے ساتھ رہیں گی۔ اخر میں ڈاکٹر اسلم فاروقی صاحب کا شکریہ جنہوں نے آپکی فن و شخصیت کا بھر پور احاطہ کیا۔اور جناب مجید عارف نظام آبادی صاحب کا بھی شکریہ کہ وہ شعرا،ادیب،افسانہ نگار، صحافی،حضرات کی فن و شخصیت کو ادب نواز لوگوں تک پہنچا نے کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم تیار کیا،
اردو زندہ باد،اردو پایندہ باد۔
وسلام
آپکا اپنا
شاہد احمد توکل
اسٹاف رپورٹر،روز نامہ اعتماد
عادل آباد،
بہت شکریہ محترم شاہد احمد توکل صآحب
Deleteجزاک اللہ خیرا
اس حوصلہ افزائی پر نہایت مشکورہوں۔
مجیدعارف
جناب شاہد توکل صاحب ۔
ReplyDeleteامید کہ بخیر ہوں گے ۔میرے افسانوں اور صحافتی خدمات پر مضمون پر آپکے تاثرات پڑھ کر مسرت ہوئی ۔ذرہ نوازی کیلئے شکرگزار ہوں ۔
اللہ سبحانہ تعالٰی آپ کو صحت و عافیت سے رکھے آمین ۔مقیت فاروقی
جناب شاہد توکل صاحب ۔
ReplyDeleteامید کہ بخیر ہوں گے ۔میرے افسانوں اور صحافتی خدمات پر مضمون پر آپکے تاثرات پڑھ کر مسرت ہوئی ۔ذرہ نوازی کیلئے شکرگزار ہوں ۔
اللہ سبحانہ تعالٰی آپ کو صحت و عافیت سے رکھے آمین ۔مقیت فاروقی