رحیم انور: میں اپنے فن کی بلندی سے کام لےلوں گا - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

16.4.20

رحیم انور: میں اپنے فن کی بلندی سے کام لےلوں گا

رحیم انور: میں اپنے فن کی بلندی سے کام لےلوں گا

 نظام آباد کےبعد بودھن اور ضلع کاماریڈی اردو ادب کا مسکن رہے ہیں۔ کاماریڈی کی سر زمین سے نامور استاد شعراء کرام جناب ضیاءجبلپوری، جناب محبوب علی محبوب اور ممتاز نثرنگارجناب رحیم انور نے افق ادب پراپنی منفرد پہچان بنا ئی اور اپنے نام کے ساتھ ساتھ ضلع کاماریڈی کا نام خوب روشن کیا۔ضیاء جبلوری اور محبوب علی محبوب آج ہمارےدرمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کا فن اور ان کی اد بی خدما ت کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے آج ضیاء صاحب اور محبوب صاحب کی غیر موجودگی میں رحیم انور ادب کی شمع کو جلا ے ہوئے ہیں اور برسوں سے یہ اردو ذ بان کے گیسوؤں کو سنوارتے ہوۓ محسن ِ اردو ہونے کاثبوت دے رہے ہیں۔ ضلع کاماریڈی میں انہی کے دم سے اد بی رونقیں اور ادبی محفلیں آباد ہیں۔ رحیم انور پچٰھلے چار دہوں سے مسلسل منی کہا نیاں اور افسانچے لکھ رہے ہیں انہوں نے اپنی ادبی وفنی صلا حیتوں کے بل بوتے اپنا نام کامیاب نثر نگاروں کی فہرست میں درج کروالیا ہےان کی اد بی کاوشوں وصلا حیتوں کا اعتراف کرتے ہوے تلنگا نہ اسٹیٹ اردو اکیڈ می نے انہیں ایورڈ توصیف نامے سے نوازا ہے۔ضلع کلکٹرنظام آباد کی جا نب سےبھی انہیں ایوارڈ مل چکا ہے اسکے علا وہ بھی را قم یہ کہنے میں حق بجا نب ہے کہ رحیم ا نور کی سرکاری سطح پراور اردو کی اد بی انجمنو ں کی جا نب سے ویسی پذ یرائی ویسا استقبا ل ویسا سما ن نہیں ہوا جیسا کے ہو نا چاہے تھا ۔ایک فنکار مسلسل چالیس برسوں سے اپنی تحریروں کے ذریعہ اردو ادب کی خدمت کررہا ہے اس کے فن کااعتراف آٹے میں نمک کے برابرہے۔ یہ تو سرا سر نہ انصافی ہے اور زبان وادب کے ساتھ ایک بھونڈامزاق ہے۔ رحیم انور کو ریاستی اردو اکیڈمی سے کار نامہ حیا ت کا ایوارڈملنا چاہیے جس کے وہ مستحق ہیں انہیں ضلع کاماریڈی میں مقا می اد یب ہونے کی حیثیت سے کلکٹر کی جانب سے بہترین قلم کار کا ایوارڈ بھی ملنا چاہیے۔ اس کے علاوہ اردو انجمنوں کو آ گے آ کر ان کی ادبی کاوشوں اور ان کے فن کااعتراف کرتے ہوے انہیں یہ احساس دلاناچاہیے کہ آج ہماری نام نہاد سوسائیٹی ومعاشرہ میں اردو قلم کار کا بھی وہی مقام اور مرتبہ ہے جو دیگر زبانوں کے ادیبوں کا ہے۔ بڑےافسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ تا ہے کہ آج اردو کے ادیبوں وشعراء کاکوئی پرسان حال نہیں ہے نہ ہی انہیں حکومت کی خا طر خواہ سر پرستی حاصل ہے اور نہ اردو کی فعال وکار کردا انجمن جو اردو زبان کا دم بھرتے ہوے نہیں تھکتی اپنے قلم کاروں کی حوصلہ افزای کے لیے تیار ہیں بقول شاعر : 
 بے وفاوں سے وفا کرکے گزاری ہے حیات میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح 
آج کےشورش زدہ ماحول کسی ادیب یا شاعرکو اسکا مستحق مقام ملنا تو دور کی بات ہے الٹا سرکاری اداروں میں کھلم کھلا اس کی حق تلفی کی جاتی ہے اس حکومت کی جا نب سے ملنے والی امداد سے بھی محروم کردیا جا تا ہے جس کی وجہ سے فنکار کے اندر ایک بے چینی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ احساس کمتری کے مرض میں مبتلا ہونے لگتا ہے ڈر اور خوف کے عالم میں اس کی ہمت جواب دینے لگتی ہے اور اس کا حوصلہ ٹوٹنے لگتا ہے اس دل دہلا دینے والے حالات میں بھی رحیم انور ثابت قدم رہے اور اپنے قلم کی روشنای قرطاس پر بکھیر تے رہے اپنے حوصلے اور اپنی ہمت کو ٹوٹنے نہیں دیا اس بات کا ثبوت ان کی گیارہ تصا نیف ہیں جو آج قارین کےہاتھو ں میں ہیں رحیم انور کی سبھی تصانف کو ادبی میں مقبولیت حاصل ہوتی رہی ہےجس کی وجہ سے ان کے اندر موجود قلم کار کو مزید لکھنے کا حوصلہ ملتا رہا انہوں نے اپنی ادبی صلاحیتوں کے ذریعہ خود ادب میں اپنےمقام کا تعیں کر لیا بقول شاعر :
 میں اپنے فن کی بلندی سے کام لےلونگا
 مجھے مقام نہ دو میں مقام لے لوں گا 

رحیم انورنے اپنے قلم کے ذریعہ اپنی کہانیوں افسا نچوں کے ذریعہ ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوی گندگی برائی،بےحسی بز دلی، کاہلی بدامنی پر ضربیں لگاتے رہے اور خواب غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگا نے کی کو شیش کرتے رہے  اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے آج کے کٹھن زدہ ما حول میں جینا بڑے دل گردے کا کام ہے ۔اس انتشاروبے کلی کی کیفیت کو ایک ادیب یا شاعرہی اپنے قلم کے ذریعہ دور کر سکتاہےاور یہ کار خیر رحیم انور برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔
 اب تک ان کی گیارہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن کا نام یہ ہیں:
1. یادوں کے ساے 
 2. آواز کا درد 
 3. اس موڈ سے 
4. ہم کہاں کہاں سے گزرے 
 5. بوند بوند سمندر 
6. احساس کا سفر 
7. سلگتے لمحات 
 8. میرے افسانچے اور مشاہیر ادب 
9. کاماریڈی حال اور ماضی کے آئینہ میں 
10. زخم زخم زندگی 
 11. بدلتے موسم 
 ان سبھی تصا نیف میں آج کے دورمیں رو نما ہونے والے حادثات ، واقعات، حالات پر مصنف نے مختلف عنوانات کے زریعہ افسانچے اور منی کہانیاں لکھی ہیں جو ہمارے اس معاشرہ کی منہ بولتی تصویریں ہیں ۔مصنف نے جہاں معاشرے کے خامیوں اور نا ہمواریوں پر اپنے قلم کے ذریعہ نشر زنی کی ہے وہیں اپنی بے لاگ تحریروں کے ذریعہ ہمارے سماج کو ایک پیام ایک میسج بھی دیا ہے امن کا بھای چارے کا محبت کا ،اخوت کا، حب الوطنی کا،قومی یکجہتی کا،اتحاد کا،آشا کا ، انکے افسانچوں کو پڑھ کر قاری دیر تک انکے تحریروں کے سحر میں کھویا رہتاہے اور وہ یہ سو نچنے لگتا ہے کہ مصنف نے ایک مختصر سی کہانی میں اتنے بڑےپیچیدہ نکتہ کو کیسےکہ ڈالا؟، دھیرے دھیرے قاری کا ذہین مصنف کے ذہن سے ہم ہنگ ہونے لگتا ہے اور وہ مصنف کے فن کا اس کی سو نچ وفکر کاقابل ہونے لگتا ہے جو ایک کامیاب قلم کار کی پہچان ہے۔ رحم انور نے بھی اپنے قاریوں کو اپنے فن سے اپنے اسلوب سے اپنا ہمنوا بنا کر ادبی دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان بنا ی ہے۔
 افسانہ اور منی کہانیاں لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے ،یہ ایک بڑا مشکل فن ہے۔دریا کو کوزےمیں بند کرنا اور دنیا کو اپنی مٹھی میں قید کرنے کا نام ہی افسانچے ہے۔ چند سطور میں ایک بڑے واقعہ کو یا ایک غیر معمولی حادثہ کو نہایت ہی مہارت اور چابکد ستی کے ساتھ پیش کرنا ہی منی کہا نی کہلا تا ہے دیگر قلم کار بڑےبڑے افسانوں وطویل کہانیوں میں وہ بات وہ نکتہ بیان بیان نہیں کر پاتے جو افسانچہ نگار چند سطور میں وہ بات نکتہ کہ دیتا ہےجو قاریوں پر فوری اثر اندازہو جاتا ہے ۔
 راقم لوگوں کی لوگوں کی اس سونچ سے اتفاق نہں رکھتا کہ افسا نچے بڑی آسانی کے ساتھ لکھے جاتے ہیں اور افسانچے نگار کوذیادہ محنت نہیں کر نی پڑتی، سچای تو یہ ہے کہ چند سطور کا افسانچہ تحریر کرنے کے لے افسانچے نگار کو گھنٹوں ذہنی ورزش کرنی پڑ تی ہے اورساتھ میں اپنی بھر پور توانائی وصلاحیتوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے ، تب کہیں جا کر ایک افسا نچہ یا ایک کہانی کا جنم ہوتاہے اگر یہ فن اتنا آسان یا سہل ہوتا توآج ہمارے ملک میں افسانچہ نگاروں کی تعداد ذ یادہ ہوتی بلکہ ہر تیسرا ادب افسانچہ نگار ہوتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افسانچہ نگاروں کے نام ہم ا پنی انگلیوں پر گن سکتے ہیں د یگر قلم کا ر وںبہ نسبت افسا نچہ نگاروں کی تعداد بہت کم ہےاس بات سے یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے کہ افسا نچہ نگاری کا فن کس قدر مشکل ہے ۔
 آیئیے اب رحیم انور کی تصنیف،، بدلتے موسم،،سے متعلق بات کی جائےجس میں ان کے قریب 126افسانچے شامل ہیں جو سلگتے ہوے اہم موضوعات پر لکھےہیں راقم نے ان کے سبھی افسا نچوں کا مطا لعہ دلچپسی کے ساتھ کیا ہے اور ان کی سلجھی ہوی تیکھی تحریرنے راقم کوبے حد متا ثر کیا ہے ۔خاص کر افسانچہ کے اختتام پر ان کے چونکا دینے کا انداز نے افسانچہ کی ہئیت اور کیفیت کو بدل کر رکھ د یا ہے راقم بھی دیگر دانشوروں اور نقادوں کی اس بعد سے پوری طرح سے اتفاق رکھتا ہے کہ افسا نچہ کی آخری لا ئن یعنی کلا ئمکس چو نکا نے والا ہونا چاہیے اگر افسا نچہ نگار کو اپنے افسانچے میں چو نکا نا نہیں آتا یا وہ چونکا دینے کے مخصوص فن سے واقف نہیں ہے تو پھر افسانچہ بے جان اور کمزور لگے گا ۔ رحیم انور نے اپنےتقر یبا سبھی افسانچوں میں قاری کو چونکا دیا ہے اور اپنےافسانچوں کو اثر انگیز بنا کر یہ تاثر دیا ہے کہ وہ چونکہ دینے کے فن سے خوب واقف ہے اس لیے انہیں ان کے ہمعصر ایک منجھا ہوا افسا نچہ نگار تسلیم کرتے ہیں جس نے کبھی اپنے فن سے اور اپنے قلم سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ میں چند مشہور نقادوں ، دانشوروں اور ممتاز قلم کاروں کے تاثرات پیش تاکہ میں اپنی بات کو اپنی راے کو ثابت کر سکوں:
نامور نقادو دانشور ڈاکٹر سلمان اطہر جاوید رحیم انور کے افسانچوں سے متعلق لکھتے ہیں آپ اچھا لکھتے ہے بعض تخلیقات بے حد پسند آئیں یقین ہے کے آپ کا فن اورنکھرے گا آپ کے افسانچے عصری جہت سے بھر پور ہوتے ہیں۔ زبان اور بیاں کے قابو کے با عث قاری پڑھتے ہوے جاذبیت محسوس کرتا ہے نامور قلم کا رو افسانچہ نگار جو گندر پال لکھتے ہیں وضااحتوں کا کام قاری پرچھوڑ دینے سے افسانچہ بڑاسڈ ول نکلتا ہے آپ کے بیان میں وہ افسانچے زیادہ چست اور بہتر ہیں جہاں آپ نے وضاحت سے احتراز برتا ہے اور اپنی بات چپ چاپ کہہ جانے پر حاوی ہیں۔ 

****
مضمون گار: ڈاکٹرضامن علی حسرؔت

No comments:

Post a Comment