شاہراہِ شعر وادب کا راہی: معین راہیؔ
معین راہیؔ کا پورا نام محمد معین الدین اور تخلص راہیؔ ہے۔ راہیؔ کی تاریخ پیدائش ۵/اگست 1970ء ہے۔ معین راہیؔ کے والد محترم جناب عبدالرزاق صاحب کو ابتداء ہی سے اپنے بڑوں سے دینی واسلامی اور نورانی ماحول ملاتھا اس لیے کہ شکرنگر بودھن (ضلع نظام آباد، تلنگانہ) کے علاقہ کو مادی ترقیات کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی بھی حاصل ہے چنانچہ معین راہیؔ کے والد محترم کے دور میں اس جگہ قطب دکن حضرت شاہ عبدالغفور صاحب قریشی قادریؒ کی مستقل وہاں آمد ہوتی تھی۔ اس طرح تزکیہ نفس کے امور اور دیگر سلوک کی منزلیں طے کرنے کے مواقع وہاں فراہم تھے۔ شکر نگر میں قائم خانقاہ میں حضرت قطب دکن کی مستقل تعلیم وتربیت اور اصلاح نے پورے علاقہ کو اپنے روحانی انوار سے مشرف و منور فرمادیا تھا اور وہاں حضرت قطب دکن کے فیوض عام تھے اور مستقل حضرت قطب دکن کے مواعظ حسنہ سے برابر استفادہ کیا جاتا تھا۔ اس کا لازمی نتیجہ یا اثر یہ ہوا کہ معین راہیؔ کو ابتداء ہی سے دینی و روحانی ماحول میسر آیا اور اسی نورانی فضاء میں ان کی پرورش و پرداخت ہوئی اور پھر خود معین راہیؔ بھی اپنے والد ماجد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاہ راہِ تصوف و طریقت پر گام زن ہوئے اور حضرت قطب دکن کے بعد ان کے فرزند وجانشین حضرت شاہ محمد نور الحق صاحب قاسمی قریشی قادری چشتی و صابری مدظلہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور سلوک کے منازل حضرت مدظلہ کی نگرانی میں مستقل طے کرنے لگے اور بحمداللہ یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
بودھن کے ماحول کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ یہاں شکر نگر میں قائم نظام شوگر فیاکٹری کی تاسیس کی بدولت ہندوستان کے مختلف مقامات سے آئے ہوئے افراد کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس میں اردو دوست اور ادب نواز افراد بھی تھے جو نہ صر ف اردو بلکہ عربی و فارسی اور دیگر زبانوں کے ماہر بھی تھے اور مختلف زبانوں میں وہ شاعری کرتے تھے۔ جب انہیں اپنے کام سے کچھ فراغت ملتی تو اپنے سخن ورانہ ذوق کی تسکین کے لیے شعری محافل اور طرحی مشاعروں کا انعقاد بھی کیا کرتے تھے۔ اسی دور کی ایک اہم شخصیت جناب شیخ حسین صاحب سالکؔ بھی ہے جن سے ابتداء میں جناب معین راہیؔ نے اپنے کلام پر اصلاح لی تھی۔ وہ حسب ذوق و بہ اعتبار مبلغ علم اصلاح سخن کی خدمت انجام دیا کرتے تھے۔ اس طرح جناب معین راہیؔ کی شعری وادبی صلاحیتوں کو جلا ملنے کے مواقع میسر آئے۔
جناب معین راہیؔ نہایت منکسر المزاج واقع ہوئے ہیں۔ وہ راہِ سلوک کے راہی ہیں۔ شعر وادب کے دلدادہ اور فنون لطیفہ کے پرستار ہیں۔ مطالعہ کائنات کے ساتھ ساتھ اُن کا مطالعہ کتب بھی برابر جاری رہتا ہے جو ایک شاعر کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پروفیسر عنوان چشتیؔ کی اہم کتابوں کی نقول مجھ سے حاصل کیں اور ان کا بغور مطالعہ کیا اور شعر وادب کی دیگر اہم کتابیں بھی وہ برابر مطالعہ کرتے رہے اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہے۔ صدحیف کہ آج بعض شعراء کی ذوات میں مطالعہ کا فقدان پایا جاتا ہے جو علم وفن کی موت کے مترادف ہے۔ جناب معین راہیؔ کو شعر وادب اور عروض وفن سے اس قدر دلچسپی ہے کہ وہ میرے قیام ورنی (ضلع نظام آباد) کے زمانہ (2011ء) میں محترم جمیل نظام آبادی کی ایماء پر مستقل شکر نگر بودھن سے ہر ہفتہ (بلکہ ہفتہ میں کم ازکم ۲/۳ بار) پابندی سے میرے پاس آتے اور عروض وفن کی دولت بٹورنے نیز شعری اسرار ورموز کے سیکھنے میں اپنے شوق بے پایاں کا حد درجہ مظاہرہ کرتے اور تمام ضروری باتوں کو اپنی بیاض میں بھی تحریر کرتے۔ عروض وفن سے ان کا حد درجہ لگاؤ ہی ہے جس نے مجھے عروضی و فنی مضامین و مسائل کو باضابطہ لکھنے اور لکھانے کی طرف مائل کیا۔
بلاشبہ علم وفن ایک بحر ناپیداکنار ہے اس لیے کہ علم اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے تاہم فن کے معاملہ میں جو باتیں مجھے اپنے بڑوں کی کفش برداری کے نتیجہ میں حاصل ہوئیں، میری خواہش ہے کہ انھیں آسان اور عام فہم انداز میں آج کے قاری کے حوالہ کروں اور شعر وادب کے پرستاروں کی خدمت میں پیش کروں۔ چنانچہ میں نے جناب معین راہیؔ صاحب تک بھی حتی المقدور اس امانت کو پہنچانے کی سعی کی ہے اسی لیے شاید انہوں نے کہا ہے ؎
چلے منزل کی جانب آبلہ پا
ہمارا حوصلہ بھی کم نہیں ہے
فن کی نزاکتوں سے جو واقف ہوا ہوں میں
واحدؔ نظام آبادی کی صحبت کا فیض ہے
لیکن ساتھ ہی مجھے شدت سے یہ احساس بھی ہے کہ خود ستائی کے زمرہ سے قریب کرنے والی باتیں آزمائش کے مرحلوں سے دوچار کرنے والی ہوتی ہیں اس لیے کہ اسی اعتبار سے پھر مجھ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میں حد درجہ حساس رہوں اور فن کے معاملہ میں نہایت باخبر رہوں۔ خیر میں نے جناب معین راہیؔ صاحب کو ابتداء میں اجزائے اولیہ، ارکانِ عشرہ، افاعیل تفاعیل، استخراج بحور، ردّ دوائر، تشکیلِ بحور، زحافات، رباعی کا فن اور اس کے اصول، عروضی آزادیاں اور معائب سخن وغیرہ دیگر عروضی مضامین درساً درساً پڑھائے اور بحمداللہ انہوں نے مذکورہ تمام مضامین کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ جس کی وجہ سے ان میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوا یہ اور بات کہ مزید پختگی مستقل محنت، گہرے شعور اور جدوجہد سے آئے گی۔ معین راہیؔ کی یہی وہ خود اعتمادی ہے جو انھیں شعری محفلوں میں کامل حوصلہ کے ساتھ اپنا کلام پیش کرنے کا جذبہ عطا کرتی ہے اور وہ محفل میں پوری آب وتاب کے ساتھ کبھی تحت اور کبھی ترنم میں اپنا کلام سناکر سماں باندھ دیتے ہیں اور سامعین کی سماعتوں پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔ جناب معین راہیؔ نے اپنے علاقہ میں ایک معتبر اور بہترین شاعر کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اپنی شعری وادبی سرگرمیوں کو پوری حوصلہ مندی کے ساتھ جاری رکھا ہے۔ خدا کرے کہ اس میں مزید تقویت آئے۔
جناب معین راہیؔ جیسا کہ قبل ازیں سطور بالا میں عرض کیا گیا ہے کہ وہ راہِ تصوف کے راہی ہیں اسی لیے مذہبی شاعری بھی کرتے ہیں اور غزلیہ شاعری بھی ان کے ہاں ملتی ہے۔ ان کے مزاج میں دینی واسلامی عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں جو ان کے صالح معاشرہ میں رہنے کی دین ہے۔ ان کے کلام کی مرکزی فکر اصلاحی و اسلامی فکر ہی ہے اور یہی رنگ ان کے کلام کا بنیادی رنگ ہے۔ اس نوع کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
کب تک مردہ دل سینے میں رکھو گے
دل زندہ رکھیے ذکر ربانی سے
پیارے آقا کا طریقہ چھوڑ کر ہیں خوار ہم
ورنہ ہم تو شاہ تھے گفتار میں کردار میں
ابھرتے ہیں وہی جو حق کے پیکر ہیں زمانے میں
کہ باطل خیر کے نقشوں میں رہ کر ڈوب جاتا ہے
شاعر اپنے گرد وپیش کے ماحول سے بخوبی باخبر ہوتا ہے۔ وہ نہایت حساس دل ہوتا ہے۔ حالات حاضرہ سے واقفیت رکھنا ہر ذی شعور کے لیے عموماً اور ہر شاعر وادیب کے لیے خصوصاً ناگزیر ہوتا ہے۔ بھلا معین راہیؔ کیسے عصر حاضر کے سلگتے مسائل سے اغماض برتتے اور کس طرح کرب زدہ احوال سے چشم پوشی کرسکتے ہیں چنانچہ راہیؔ نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے جو باتیں کہی ہیں وہ درج ذیل اشعار سے ظاہر ہیں ؎
پیار کا اخلاص کا دنیا میں ہر سو کال ہے
اب نگاہوں میں فقط پیسہ ہی پیسہ ہوگیا
ہم کو رہنا ہے سنبھل کر آج کے ماحول میں
اب یہاں ہر شخص کے چہرے پہ چہرا ہوگیا
دلہے جو بک رہے تھے تو یہ دیکھ کر غریب
بیٹی کو اپنی دلہا دلانے میں رہ گیا
ہمارے دورکا اس سے بڑا کیا سانحہ ہوگا
کفالت گھر کی کرتے کرتے بوڑھا ٹوٹ جاتا ہے
اک دوسرے کے واسطے مرنے کی آرزو
راہیؔ وہ دن گئے، وہ زمانہ بدل گیا
جناب معین راہیؔ کی شخصیت میں موجود ایک اہم وصف یہ بھی ہے کہ وہ قلندرانہ مزاج کے مالک ہیں اور اقبال کے مصرع”کہ استغناء میں دیکھی میں نے معراجِ مسلمانی“ کی تصویر ہیں۔ وہ خود ستائی سے دور اور للہیت سے بہت قریب رہتے ہیں اور خوش خلقی، خندہ پیشانی اور بڑے تپاک سے ہر ایک سے ملتے ہیں اور ماحول میں خلوص کی دولت لٹاتے رہتے ہیں۔ بقول کسے ؎
احباب میں لٹاتے ہیں دولت خلوص کی
گھر میں ہمارے کوئی خزانہ تو ہے نہیں
معین راہیؔ کی ذات میں موجود جس وصف کی نشاندہی کی ہے، ان کے درج ذیل اشعار سے اس وصف کا اظہار ہوتا ہے، ملاحظہ ہوں ؎
اس کی چاہ کے صدقے دل ہوا غنی اپنا
بے نیاز رہتا ہوں میں بہت امیروں سے
وجد وکیف کا عالم ہم پہ طاری رہتا ہے
کب ہمیں محبت ہے مال وزر سے ہیروں سے
میں اتنا غرق ہوں دریائے عشق میں راہیؔ
کہاں ہوں کون ہوں خود کا کوئی پتہ نہ لگے
مرا مسلک محبت ہی محبت
جہاں دنیا کا کوئی غم نہیں ہے
اپنی دیوانگی میں رہتا ہوں
کیا غرض کوئی کچھ بھی بولے تو
اس لیے راہیؔ نے خدائے تعالیٰ سے اس وصف کی فریاد کی ہے ؎
پرواز کی لگن دلِ مضطر میں ڈال دے
شانِ قلندری مرے عنصر میں ڈال دے
جناب معین راہیؔ غزل کے بھی بہترین شاعر ہیں۔ وہ اپنی غزلوں میں غزلیہ رنگ کو اس کے مکمل بانکپن کے ساتھ باقی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور غم جاناں کو بڑے سلیقہ سے شعری پیکر میں ڈھالنے کا فن جانتے ہیں اور لیلائے غزل کے گیسوسنوارنے میں اپنے شب وروز بسر کرتے ہیں اور مستقل فکر شعری کے ذریعہ شاعری کو واقعی اپنا خون جگر دینے کی سعی مشکور انجام دیتے ہیں اور شعر میں شعریت ومعنویت پیدا کرنے کی بھرپور جستجو کرتے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بارہا ایسا ہوا کہ ایک ایک شعر کو متعدد مرتبہ انہوں نے قلم زد کرکے از خود پھر اس میں شعریت پیدا کی ہے اور شعر کو شعر بنایا ہے۔ ان کی غزلوں کے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں جو ضیافت طبع کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ ؎
اس نے کیا پھیرلی نظر ہم سے
جان میں اب ہماری جان نہیں
محبت میں فقط دیوانگی پیدا کرو راہیؔ
دوانہ کے لیے ہر سخت پہرہ ٹوٹ جاتا ہے
کچھ اور کام مجھ سے نہیں ہوسکا مگر
دل میں فقط اسی کو بسانے میں رہ گیا
جام الفت جو پی لیتا ہے راہیؔ
ہر غم سہہ لیتا ہے وہ آسانی سے
ایجاز و اختصار شاعری کا اعجاز ہے۔ رمزیت و ایمائیت شاعری کی جان ہے۔ اس سلسلہ میں شاعر کا کمال وہاں ظاہر ہوتا ہے جہاں وہ کسی واقعہ کو بطور تلمیح شعر میں بیان کردیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ واقعہ بجائے خود اپنے تمام جزئیات کو محیط ہوتا ہے مگر شاعر اپنے کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے تفصیلی واقعہ کو صرف ایک شعر میں بیان کردیتا ہے۔ اسی قبیل کا ایک شعر جناب معین راہیؔ کی زنبیل سخن میں بھی ملتا ہے، ملاحظہ ہو ؎
عزم چیونٹی کا اس نے جب دیکھا
جنگ پھر جیتا حوصلہ کرکے
شاعر کے ذہن میں الفاظ و تراکیب کا جو ذخیرہ ہوتا ہے شاعر اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے مفہوم کے اعتبار سے ان الفاظ کا استعمال کرتا ہے اور ہر لفظ کو اسی طرح برتتا ہے جیسے وہ اس کے ذہن میں ہوتا ہے۔ یہ نہایت اہم مسئلہ ہوتا ہے اس لیے کہ شاعر کے ذہن میں الفاظ بھلے ہی زیادہ ہوں مگر ان کے درست اعراب کا جاننا بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ شعر اچھا ہوتے ہوئے بھی اس نوع کے عیب سے داغ دار ہوتا ہے۔ اسی طرح تمام تراکیب پر مشتمل باتیں ہیں۔ اس نقطہ نظر سے معین راہیؔ کے کلام کو دیکھا جائے تو ناامیدی نہیں ہوتی ہے بلکہ خوشی کا اظہار ہوتا ہے اس لیے کہ وہ شب وروز اسی تگ ودو میں رہتے ہیں۔ وہ حصول علم کے جذبہ سے سرشاررہتے اور ادبی وشعری امور میں اپنے اساتذہ سے مشورہ کو لازم سمجھتے ہیں تب ہی وہ معائب سے پاک اور محاسن سے مملو شاعری کرتے ہیں۔ اس خصوص میں ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
سفر طویل ہے اور آبلہ زدہ پا ہے
کٹے گا درد کے صحرا میں یہ سفر کیسے
چلے منزل کی جانب آبلہ پا
ہمارا حوصلہ بھی کم نہیں ہے
سچ بتا دنیائے دوں! کیا تو نہیں ہے بے وفا
تونے تو ہر ایک کو دھوکا دیا چاروں طرف
اس مضمون کے آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں جناب معین راہیؔ کے چند منتخب اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کروں، ملاحظہ کیجئے ؎
دل پر تکلفات کی بجلی گری ہے آج
”تم“ کہتے کہتے اس نے مجھے”آپ“ کہہ دیا
دال روٹی ہے گاؤں کی بہتر
شہر کی مضطرب ترقی سے
عجیب حال ہے اترا رہا ہے وہ خود پر
جس کو بحر تو کیا علم قافیہ ہی نہیں
باتیں تمہاری لائق صد احترام ہیں
لیکن خطا معاف! عمل بھی کیا کرو
میں اکیلا کہاں ہوں ائے دل بر
تیری یادیں ہیں اور تنہائی
اسے جھوٹی گواہی نے بچایا
مگر سچ اس کا پیچھا کررہا ہے
بڑا وہ جو اپنی انا کو مٹادے
وہ محتاط بھی ہو، ریا تک نہ پہنچے
میں کہ اک خاک بسر میری حقیقت کیا ہے
بس مری ”میں“ کو مٹانے کے لیے زندہ ہوں
ایمان کو بچالیا زندہ ضمیر نے
مردہ ضمیر مال کمانے میں رہ گی
خیال و فکر کے موتی کناروں پر نہیں ملتے
تلاطم خیز موجوں میں سخن ور ڈوب جاتے ہیں
معین راہیؔ میں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ ہر وقت خوب سے خوب تر کی تلاش میں سر گرم عمل رہتے ہیں اور شعر وادب یا علم وفن کے حصول کا غیر معمولی جذبہ ان میں پایا جاتا ہے اور یہی وہ راز ہے جو فن کار کو فن کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے اور فن بھی اس کا قدر دان ہوتا ہے یعنی اسے فن کی دنیا میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اسی لیے میں امید بلکہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ معین راہیؔ ادب کی دنیا کے ایسے راہیؔ ہیں جو شاعری کی دنیا میں بہت آگے جائیں گے اور اپنے فن کا لوہا منواکر ہی دم لیں گے۔
بارگاہِ ایزدی میں دست بہ دعا ہوں کہ وہ انہیں دو نوں جہاں کی عافیت کے ساتھ ساتھ ملک سخن کی شاہی بھی عطا کرے۔
٭……٭……٭
مضمون نگار: واحدؔ نظام آبادی، ایم اے،ایم فل، ٹرانسلیشن اسٹڈیز
14/جون 2019 کو نظام آباد میں منعقدہ کل ہند مشاعرہ و سمینار برائے فروغ اردو زبان کے موقع پر جناب معین راہی کو ضلع کے بہترین شاعرہونے کااعزاز(مع توصیف نامہ و نقد رقم) بدست پروفیسر ایس اے شکور، ڈائرکٹراردواکیڈمی، ریاست تلنگانہ کے ہاتھوں عطا کیاگیا۔ تصویر میں چیرمین اکیڈمی جناب عبدالرحیم انصاری بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment