عبدالقدوس رضوانؔ کی شعری کائنات آئینہ سخن
شکر نگر بودھن(نظام آباد، تلنگانہ) کے وہ شعراء وادباء جنہوں نے وہاں موجود شکر خانہ کی بدولت اپنے شعری وادبی ذوق کی بناپر ایک سنہرہ ادبی ماحول بنایا تھا۔ اسی ادبی ماحول کی فضاء میں تربیت یافتہ ایک فرد جناب محمد عبدالقدوس رضوانؔ بھی ہے جن کا لگاؤ مذہب و ادب کی طرف غیر معمولی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک متشرع اور دین دار انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے صحافی اور شاعر وقلم کار بھی ہیں جن کے مختلف موضوعات پر تحریر کردہ مضامین آئے دن اخبارات ورسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ان کی تخلیقات بھی گاہے ماہے متعدد جرائد میں اشاعت کا شرف پاتی رہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے علاقے میں ایک بہترین نثر نگار، صحافی اور شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
محمد عبدالقدوس رضوانؔ مسلسل کسی نہ کسی موضوع پر خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں اور معاشرہ و سماج میں پائے جانے والے حالات و واقعات پر مستقل اپنا قلم اٹھاتے رہتے ہیں۔ وہ قرطاس وقلم کی دنیا کے وہ سفیر ہیں جن کا سفرپیہم جاری وساری رہتا ہے۔ اب تک نثری ادب کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے تین افسانوی مجموعے بنام گلاب کا لہو (1995) ء ائے وطن تیرے لئے (2003) اور مسیحا (2009) شائع کئے اور ان کا یہ ریکارڈ ہے کہ اب تک بحمداللہ 550 افسانے انہوں نے بقلم خود تحریر کئے ہیں۔ اس پر ان کی شعری تخلیقات مستزاد ہیں۔اس طرح دیکھا جائے تو ان کی ادبی کوششیں نہایت بار آور نظر آتی ہیں۔
سرِ دست محمد عبدالقدوس رضوانؔ صاحب کے مجموعہئ کلام کے منتشر اوراق بشکل شیرازہ بندی راقم الحروف کے سامنے ہیں جن کے مطالعے سے ان کے ذوق کی عکاسی ہوتی ہے۔ زیر نظر مجموعہ میں ان کا حمدیہ، نعتیہ، سنجیدہ ومزاحیہ کلام شامل ہے جس سے ان کی طبیعت کی بو قلمونی اور تنوع پسندی ظاہر ہوتی ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ وہ ایک اچھے سنجیدہ ومزاحیہ شاعر ہیں۔ ان کی محنتیں بڑھ جائیں تو ان کے فکر وفن کو مزید جلامل سکتی ہے اور وہ اس راہ میں بہت آگے جاسکتے ہیں۔
محمد عبدالقدوس رضوانؔ جیسا کہ عرض کیا گیا ایک بہترین اور قابل قدر صحافی کی حیثیت سے بھی اپنے علاقے میں مشہور ہیں جس کی وجہ سے آئے دن مختلف خبروں اور اطلاعات سے ان کا سابقہ پڑتا رہتا ہے اور معاشرہ وسماج کے احوال سے انھیں گہری واقفیت ہوتی ہے اور حالات کو قریب سے قریب تر دیکھنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے۔ ماحول کے سلگتے مسائل سے بحیثیت صحافی متاثر ہونا لازم بات ہے اور یہی اثر ان کی شاعری میں دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے اپنے کلام میں ایسے موضوعات کا بطورِ خاص احاطہ کیا ہے اور ان واقعات سے اچھے نتائج اخد کئے ہیں۔ درج ذیل اشعار بلا تبصرہ ملاحظہ ہوں۔ ؎
کئی اک کارواں لوٹے ہیں جس نے
وہ میرا راہ بر ہے اور میں ہوں
دھوکے کھائے ہیں اس قدر رضواں ؔ
دوست بھی بے وفا سا لگتا ہے
لڑکی ہے جواں گھر میں مگر کیا کریں ماں باپ
لڑکا نہ کہیں مل سکا مہنگائی بہت ہے
ہر سو جدیدیت کی گھٹا چھارہی ہے آ
بے پردگی جو عام ہوئی جارہی ہے آج
مگر ان سب گرم احوال کے باوجود محمد عبدالقدوس رضوانؔ اپنے ماحول سے مایوس نہیں ہیں اسی لئے کہتے ہیں ؎
انقلاب آئے گا اک روز ضرور آئے گا
وحدتِ حق کی ہے آواز صنم خانوں میں
فکر وفن میں خالص غزلیہ رنگ کا در آنا فطرت کا تقاضہ ہے اور محمد عبدالقدوس رضوانؔ نے غزل کی تابندگی و درخشندگی کو بھی برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
اپنی آنکھوں سے کچھ پلادو اسے
دل ہمارا پیاسا لگتا ہے
ہم بھی خوش بخت ہیں بہت ہر دم
ہم انہیں کی نظر میں رہتے ہیں
ان حسین آنکھوں کو دیکھو کہ ہیں ہرنی جیسی
اور تغافل کے ہیں آثار خدا خیر کرے
ہم بھی خوش بخت ہیں بہت ہر دم
ہم انھیں کی نظر میں رہتے ہیں
ہو تری چشم عنایت کہ ستم سہتا ہوں
کردیا رسوا زمانے نے سراسر مجھ کو
محبت کا ہر اک سو کال ہے اب
فقط نفرت سے یہ دنیا بھری ہے
یہ سوچ لیا ہے کہ تجھے پاکے رہوں گا
مانا کہ ترے پانے میں کٹھنائی بہت ہے
محمد عبدالقدوس رضوان زندہ دل اور نہایت حساس بھی واقع ہوئے ہیں چنانچہ ان کے اندر غیر معمولی ظرافتِ طبع بھی پائی جاتی ہے۔ ان کے پاس طنزیہ ومزاحیہ رنگ بھی خاصا گہرا نظر آتا ہے اور بڑی حدتک اپنی مزاحیہ شاعری میں انہوں نے کمال بھی حاصل کرلیا ہے، چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
چکنا سسرال ہے مقدر سے
ساس بھی خوبرو ہے اور تو ہے
جس کی بھی اوپر کی کمائی ہوتی ہے
اس کی سوسائٹی ہائی ہوتی ہے
عجیب سوتنوں میں ہوگیا ہے سمجھوتہ
مجھے تو دال میں کالا دکھائی دیتا ہے
لگ گیا ہے ٹیکس ہر اک چیز پر
اک ہوا ہی مفت کھانا چاہئے
کام بنتا نہیں صرف درخواست سے
سب ہی رشوت کے اب گن جو گانے تھے
درج ذیل اشعار میں انہوں نے طنز کی تیزی سے بھی کام لیا ہے اور سلگتے مسائل پر گہری چوٹ کی ہے، ملاحظہ ہوں ؎
بس شہیدوں کے لئے اس دور میں
خامشی دو پل منانا چاہئے
آگیا ہے اب الیکشن بھی قریب
ہندو مسلم کو لڑانا سوچ رَؤں
اب تو دشمن کے بھی لہجے میں مٹھاس آئی ہے
ایسا لگتا ہے کہ نیتا نہیں حلوائی ہے
محمد عبدالقدوس رضوانؔ نے زندگی کے کئی نشیب وفراز دیکھے ہیں۔وہ زمانے کے سرد وگرم سے خوب واقف ہیں۔ غم و آلام اور ابتلاء و آزمائش کی بھٹی میں تپ کر ان کی شخصیت شخصیت بنی ہے۔ وہ اپنی زندگی کو اصولی طور پر کامیاب وکامران بنانے کی سعی میں مصروف عمل رہتے ہیں اور موجودہ دور میں لوگوں کی فنکاری اور مکاری کا احساس کرتے ہوئے اپنی مثبت ذہنیت سے کام لیتے ہیں۔ اپنی اولاد کو زیورِ علم سے آراستہ کرکے انہیں راہِ راست پر لانے کی فکر کے ساتھ ساتھ خود مکتفی بنانے کے لئے اپنی توانائیوں کو صرف کردیتے ہیں۔ انہیں خدا اور رسول اور اسلامی و دینی تعلیمات سے بہرہ ور کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔
محمد عبدالقدوس رضوانؔ نے قرطاس وقلم سے وابستہ رہ کر اپنی عاقبت پر بھی نظر رکھی ہے، ورنہ موجودہ دور میں بیشتر صحافی اور اہل قلم حلال وحرام کی تمیز کے بغیر اپنی صحافتی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں مگر محمد عبدالقدوس رضوانؔ نے خوفِ خدا کو حرزِ جاں بنائے رکھا۔ وہ اہل حق کی راہ پر چلنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں،چنانچہ انہوں نے عارف باللہ حضرت شاہ محمد نورالحق صاحب قاسمی قریشی چشتی وصابری مدظلہ سے اپنا اصلاحی تعلق بھی قائم رکھا ہے اور مستقل ان کی مجالس میں شرکت کے ذریعہ اپنے ایمانی جذبات کو تازہ کرتے رہتے ہیں اور اصلاحِ نفس کے لئے سعی کرتے رہتے ہیں جو قابل مبارک بات ہے۔
عصر حاضر میں اپنی تمام تر معاشی سرگرمیوں اور دیگر امور کی نزاکتوں کو نبھاتے ہوئے شعر وادب پر توجہ دینا بڑی بات ہے۔ اس کے لئے جنون والی کیفیت چاہئے، تبھی ادبی وشعری امور کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ شکرنگر بودھن کے شاعر وصحافی محمد عبدالقدوس رضوانؔ کی کوششیں شعر وادب کے باب میں جاری ہیں۔ انشاء اللہ ادبی حلقوں میں ان کی کوششوں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔
٭……٭……٭
No comments:
Post a Comment