شیخ احمد ضیاؔء: شاعر ادیب و مزاح نگار
تعارف منجانب: بزمِ شاعری نظام آباد
نام: شیخ احمد
ولدیت: حضرت شیخ امین پٹیل صاحب مرحوم و مغفور
تخلص: ضیاء
سن پیدائش:1960ء
مقام پیدائش: بودھن ضلع نظام آباد ۔تلنگانہ
رہائش: شکر نگر بودھن منڈل ضلع نظام آباد
تعلیمی اہلیت: ایم۔ اے ( اردو۔ عثمانیہ)
پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ ان شوگر ٹکنالوجی
پیشہ: ابتدائی ملازمت۔ مینیجر کوالٹی کنٹرول( شوگر ٹکنالوجسٹ، نظام شوگرس لمیٹڈ)
موجودہ ملازمت: ڈسٹرکٹ ویجیلنس آفیسر تلنگانہ اقلیتی اقامتی اسکولس
سن آغاز شاعری: 1980
استاد سخن: حضرت شیخ حسین سالک صاحب مرحوم و مغفور، بودھن۔
پسندیدہ اصناف سخن: نعت، غزل، تضامین، نظم
شائع شدہ تصانیف : طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعے
1۔ زیر زبر پیش۔ سن اشاعت 2005ء
2۔ افکار تازہ 2009ء
3۔ وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں۔ 2016ء
زیر طبع تصانیف:
نعتیہ مجموعہ
سنجیدہ کلام کا مجموعہ
طنزیہ و مزاحیہ کلام کا مجموعہ
انشااللہ بہت جلد شائع ہو کر منظر عام پر آئیں گے۔
اعزازات:
مندرجہ بالا تینوں تصانیف پر اردو اکیڈمی آندھرا پردیش و تلنگانہ کی جانب سے خصوصی انعامات سے نوازا گیا
ایک طنزیہ مضمون " اولڈ ایج ہوم " کو گورنمنٹ گری راج ڈگری کالج نظام آباد کے سال دوم کے نصاب میں شامل کیا گیا۔
بزم کہکشاں نظام آباد کی جانب سے ضلع کے نمائندہ شاعر کے ایوارڈ سے نوازا گیا
ضلع نظام آباد انتظامیہ کی جانب سے ضلع کی صدی تقاریب و دیگر مواقعوں پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
مختلف رسائل، جرائد و بین الاقوامی روزناموں میں ادبی مضامین، شاعری، تہذیبی و ثقافتی مضامین ، طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے برسوں سے مسلسل شائع ہونے کا منفرد اعزاز۔
ملک کی مختلف ریاستوں میں منعقدہ کل ہند مشاعروں میں ضلع نظام آباد کے شاعر کی حیثیت سے کامیاب نمائندگی۔
ادبی و ثقافتی تنظیموں سے وابستگی:
معتمد عمومی انجمن شعراءے اردو ضلع نظام آباد
معتمد عمومی بزم اردو ادب بودھن
کنوینر ٹیلنٹ سرچ کمیٹی بودھن
معتمد عمومی علامہ اقبال ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی بودھن۔
معروف شاعر شیخ احمد ضیاءؔ کسی تعارف کے محتاج نہیں لیکن ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طورپر ان کا تعارف لکھ رہا ہوں۔ ضیاء کی ادبی صلاحیتیں صرف شاعری تک ہی محدود نہیں بلکہ آپ ایک نفیس نثر نگار بھی ہیں۔ اس مضمون کے ذریعے میں ان کے اب تک کے ادبی سفر کو رقم کرنے کی کوشش کروں گا. ضیاء کے والد مرحوم شیخ امین پٹیل صاحب ریاست پہلے مہاراشٹرا پھر آندھراپردیش میں پولیس پٹیل رہے۔ آپ اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے تھے اور اپنے فرزند کو اچھی ادبی کتابوں کے مطالعے کی ترغیب دیتے اور ان کی ادبی تخلیقات پر اپنی قیمتی رائے سے نوازتے۔ اپنے والد کے زیر سایہ ضیاء کا ادبی ذوق اعلیٰ معیار کی سطح پر پروان چڑھنے لگا۔ یہ آپ کی تمام صلاحیتوں کی بنیاد ہے۔
ضیاء کا تعلق ریاست تلنگانہ کے ادب بیدار علاقے شکر نگر بودھن سے ہے۔ اس علاقے نے دنیائے ادب کو ایک سے بڑھ کر ایک ادبی نگینے دئیے۔ ضیاء نے بھی اپنی اس علاقائی روایت اور تہذیب کو برقرار رکھتے ہوئے اردو ادب کی مختلف شعبوں میں انتہائی اہم خدمات انجام دیں۔ ان میں سب سے پہلے میں موصوف کی شاعری کا ذکر کرنا چاہوں گا کیونکہ تمام خدمات میں ان کی شعری خدمات کا ذکر ہی یقیناً مقدم رہے گا۔ ضیاء نے باضابطہ طور پر سن 1980ء میں اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور ابتدا میں کچھ طرحی مشاعروں میں اپنا کلام بھی سنایا لیکن ملازمت کی مصروفیات کے سبب یہ سلسلہ کچھ وقت کے لئیے تھم گیا اور چند سالوں بعد دوبارہ شعر گوئی کو تحریک ملی۔ یوں تو بنیادی طور پر ضیاء سنجیدہ شاعر ہیں غزل اور نظم پر آپ کی بہت اچھی مشق ہے لیکن میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ ان کی تمام اصناف کی شاعری میں سب سے متاثر کن شاعری ان کی نعتیں ہیں کیونکہ ضیاء نعت انتہائی ادب و عقیدت سے لکھتے ہیں نعتیہ اشعار میں برجستگی کے ساتھ مضامین کا بیان کرتے ہیں جو کہ ایک شاعر کے لئیے ذرا مشکل کام ہے اس کی مثال ان کے اس مقبول عام شعر سے ملتی ہے؎
ایک نظر سرکار نے ڈالی عمر عمر فاروق ہوئے
ویسے عمر کو ایسا بنانا سب کے بس کی بات نہیں
اس کے علاوہ بھی آپ کی کئی نعتیں عظمت رسول اللہ ﷺ بیان کرتی ہیں جو کہ والہانہ عشق رسول اللہ ﷺ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ نعت کے بعد قابل ذکر آپ کی سنجیدہ غزلیں اور نظمیں ہیں۔ اپنی سنجیدہ غزلوں کو ضیاء صاحب اشارہ، کنایہ، استعارہ، تمثیل، تلمیح، محاورہ جیسے محاسنِ سخن سے آراستہ کرتے ہیں اور وہ بھی سہل ممتنع کے دائرے ہی میں رہ کر یہ بھی ان کی اعلیٰ معیاری شعری مشق کی دلیل ہے۔ نظموں میں ضیاء صاحب اکثر سماجی مسائل اور ان کے حل کا ذکر کرتے ہیں اور اپنی شاعری کے ذریعے اصلاحی و تعمیری فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
ضیاء صاحب مشہور مزاحیہ شاعر مرحوم فرید انجم کے مشورے پر طنزیہ و مزاحیہ شاعری شروع کی اور یہ شعری سفر اس آب و تاب کے ساتھ چلا کہ آپ نے نہ صرف ریاستی بلکہ ملک گیر سطح پر اپنے علاقے کے نمائندہ مزاحیہ شاعر کی شناخت بنالی۔ ان کی مزاحیہ شاعری مشاعروں میں قہقہوں کی گونج برپا کر دیتی ہے۔ آپ کی شاعری عام فہم اور سادہ زبان میں ہوتی ہے۔ مزاحیہ شاعری میں ضیاء نے قطعات، تضامین، نظمیں اور غزلیں کہی۔ آپ کی مزاحیہ شاعری میں معیاری مزاح ہوتا ہے جو کہ بیہودہ باتوں سے پاک ہوتا ہے آپ کی مزاحیہ شاعری کا مقصد صرف سامع یا قاری کو ہنسانا ہی نہیں ہوتا بلکہ اس میں اصلاحی اور تعمیری پیغامات بھی پوشیدہ ہوتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اصلاح معاشرہ ہر فن کار کی بنیادی و اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے اس ذمہ داری کو ضیاء نے بخوبی نبھایا۔ آپ کی مزاحیہ غزلوں میں حالات حاضرہ کے علاوہ روایتی لہجے کا رنگ بھی صاف نظر آتا ہے۔ مزاحیہ نظموں میں ضیاء کا کمالِ بیان یہ ہے کہ نظم چاہے کسی بھی موضوع پر ہو شروع میں بہت ہنساتی ہے اور اختتام میں تغیرات والا غور و فکر کا ایک سنجیدہ پیغام دے جاتی ہے۔
اب تک میں نے ضیاء کی شعری خدمات کا تذکرہ کیا گیا اب ان کی نثری خدمات پر بھی روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ضیاء کی ہمہ جہتی ادبی صلاحیت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں۔ آپ نے مختلف شخصیات پر مضامین لکھے، انگریزی سائنسی مضامین کے اردو ترجمے بھی لکھے، ان کے علاوہ کئی انشائیے، سنجیدہ و مزاحیہ مضامین بھی آپ نے رقم کئیے، شعری تخلیقات کی طرح آپ کی نثری تخلیقات بھی مختلف اخبارات اور رسائل میں چھپ چکی ہیں۔
اپنی تخلیقی خدمات کے علاوہ آپ نے بودھن میں کئی مقامی، ریاستی اور کل ہند سطح کے مشاعرے منعقد کروائے۔ اپنے مکان میں بھی آپ نے کئی نعتیہ مشاعرے منعقد کئیے۔ اردو ادب کی آبیاری کے لئیے ضیاء صاحب ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ میں ضیاء صاحب کی ان ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ ان کا ادبی سفر ایسے ہی رواں دواں رہے۔
شیخ احمد ضیاء کی فکر وفن کے متعلق 'مشاہیرعلم و ادب کے تاثرات ملاحظہ فرمائیں:
مضمون نگاری کے دوران تمہید اور اس تمہید کے توسط سے موضوع کو ارتقائی مرحلے تک لے جانا اور اس کے توسط سے انسای ذہن کو سیراب کرنا شیخ احمد ضیاءؔ کو خوب آتا ہے۔
(ڈاکٹر مجید بیدار)
شیخ احمد ضیاءؔ کے مضامین ہم عصر چھوٹے بڑے مسائل و مصائب کا آئینہ ہیں ۔ یہ مسائل زیادہ تر مقامی نوعیت کے ہیں اور موضوعات وقتی و ہنگامی ہیں ۔ ان کے مضامین میں سماجی شعور کی بیداری کا احساس ہوتا ہے جس کے بغیر اچھا مزاح کیا نہیں جا سکتا۔ ( ڈاکٹر سید مصطفیٰ کمال، مدیر ماہناہ "شگوفہ")
شیخ احمد ضیاءؔ کو زبان و بیان پر کافی دسترس حاصل ہے۔ طنز و مزاح کی اس کساد بازاری کے دور میں شیخ احمد ضیاءؔ جیسے چند لکھنے والے ہی ملیں گے۔
(ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید)
شیخ احمد ضیا ئ عرصے سے لکھ رہے ہیں اور خوب لکھ رہے ہیں۔ان کے سبھی مضامین انسانی نفسیات اور روزمرہ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اور مشاہدات کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں (پروفیسر حبیب ضیاءؔ)
نمونہ کلام:
حمد باری تعالی
تری حمد لکھنے بیٹھا تری یاد جب بھی آئی
ترے فضل اور کرم نے مجھے روشنی دکھائی
ہوئی غفلتیں جو طاری دیا کچھ نہیں سجھائی
ترا ذکر لب پہ آیا مری جاں میں جان آئی
ہوا مبتلا ے غم جب، گھرا جب مصیبتوں میں
میں نے دی ہے اس گھڑی بس ترے نام کی دہائی
کسی ناخدا کے بدلے میں نے بس تجھے پکارا
کسی موڑ پر کبھی جب مری ناو ڈگمگائی
نعتیہ کلام
تھام کر مدحت کا دامن ،شاعری کے واسطے
کہ رہا ہوں نعت در پر حاضری کے واسطے
عرش پر منتظر جو رہا آپ کا
جانتا ہے وہی مرتبہ آپ کا
بولنا آپ کا، دیکھنا آپ کا
یا نبی ہر عمل معجزہ آپ کا
لفظ، کاغذ ، قلم سب مہکنے لگے
نام جب جب بھی میں نے لکھا آپ کا
درود پاک جو پڑھتا بہت ہے
عبادت کے مزے لیتا بہت ہے
پلادو گھول کر بس خاک طیبہ
میاں یہ کام کا نسخہ بہت ہے
غلامی کی مہر لگ جائے جس پر
وہ سکہ حشر میں چلتا بہت ہے
ذکر خیر الوری ہی سب کچھ ہے
ورد صل علی ہی سب کچھ ہے
کچھ نہیں کائنات ان کے بغیر
آمد مصطفے ہی سب کچھ ہے
میں ہوں کیا اور میری ہستی کیا
پاس ان کا دیا ہی سب کچھ ہے
میں نے مانگا ذرا سا صدقہ بس
یوں لگا یہ ذرا ہی سب کچھ ہے
سنجیدہ کلام
آدمی آدمی کو کیا دے گا
جو بھی دےگا ہمیں خدا دے گا
جو پنپتا ہے شر کی وادی میں
امن کی بستیاں جلا دے گا
پہلے کاٹے گا فصل جسموں کی
بھیک میں پھر وہ خوں بہا دے گا
جشن تنہائی منانے میں مزہ آتا ہے
حال دل خود کو سنانے میں مزہ آتا ہے
جس کی اجرت سے جلے شام کو گھرمیں چولھا
بوجھ وہ سر پہ اٹھانے میں مزہ آتا ہے
رات کے پچھلے پہر دست دعا رکھ کے کھلے
اس کو احوال سنانے میں مزہ آتا ہے
کسی کی بے وفائی پر دل ایسا ٹوٹ جاتا ہے
کسی معصوم کا جیسے کھلونا ٹوٹ جاتا ہے
مصیبت، مشکلیں، رنج و الم اور درد و غم مل کر
جب اس کو گھیر لیتے ہیں تو بندہ ٹوٹ جاتا ہے
بہو ماں باپ سے جب ان کا بیٹا چھین لیتی ہے
نکلتی آہ دل سے ہے بڑھاپا ٹوٹ جاتا ہے
مسیحا ہوں کہے قاتل ، یہ شر اچھا نہیں لگتا
ستم گر اب ترا کوئی عذر اچھا نہیں لگتا
سفر کی شرط اول ہے تعین راہ کا ہونا
مسافر راستوں سے بے خبر اچھا نہیں لگتا
جو وعدہ تم نے کیا تھا وفا ہوا ہی نہیں
بہار نو ہے کہاں کچھ اتا پتہ ہی نہیں
میں اپنے آپ سے اب تک کبھی ملا ہی نہیں
اس المیہ سے بڑا کوئی المیہ ہی نہیں
ہیں چند اشک ندامت عمل کے خانے میں
اثاثہ اس کے سوا اور کچھ بچا ہی نہیں
کرکے احسان یوں جتانا کیا
جو کمایا اسے گنوانا کیا
نہیں ہے بوجھ سر پر خواہشوں کا
اثاثہ مختصر ہے اور میں ہوں
غنیمت ہے تری بستی میں اب تک
مرے شانوں پہ سر ہے اور میں ہوں
پرے ہے جو بہت فہم و گماں سے
جہاں ہو خیر کا غلبہ وہاں شر ڈوب جاتے ہیں
ستم دم توڑ دیتے ہیں ستمگر ڈوب جاتے ہیں
مقابل حق پرستوں کے جہاں فرعونیت آے
وہاں دریا کے بیچوں بیچ لشکر ڈوب جاتے ہیں
عظمت رب کا دیا دل میں جلا رکھا ہے
پاس کچھ بھی نہیں بس خوف خدا رکھا ہے
دیکھ کر اس کو سنبھل جاتے ہیں کرنے والے
اس نے کردار کو آیینہ بنا رکھا ہے
جشن تنہائی منانے میں مزہ آتا ہے
زخم دل خود کو دکھانے میں مزہ آتا ہے
رات کے پچھلے پہر دست دعا رکھ کے کھلے
اس کو احوال بتانے میں مزہ آتا ہے
جس کی اجرت سے جلے شام کو گھر میں چولھا
بوجھ وہ سر پہ اٹھانے میں مزہ آتا ہے
یہ نہ دیکھو کہ کھنگالے ہیں سمندر کتنے
دیکھنا یہ ہے کہ ہاتھ آے ہیں گوہر کتنے
المیہ اس سے بڑا اور بھلا کیا ہوگا
گھر میں رہتے ہوئے ہم لگتے ہیں بے گھر کتنے
جن سے امیدیں تھیں وابستہ ضیاء اردو کو
آج ملتے ہیں یہاں ایسے سخنور کتنے
ہر دن نئ صبح نئے منظر تلاش کر
غزلیں نئ نئ نئے بیکر تلاش کر
جس در سے مل رہی ہیں زمانے کو نعمتیں
در در بھٹکنا چھوڑ وہی در تلاش کر
گم ہوگئے ہیں پیار محبت وفا خلوص
دن ڈھل رہا ہے جا انھیں گھر گھر تلاش کر
مسیحا ہوں کہے قاتل یہ شر اچھا نہیں لگتا
ستمگر اب ترا کوئی عذر اچھا نہیں لگتا
سفر کی شرط اول ہے تعین راہ کا ہونا
مسافر راستوں سے بے خبر اچھا نہیں لگتا
جو وعدہ تم نے کیا تھا وفا ہؤا ہی نہیں
بہار نو کا ضیاء کچھ اتا پتہ ہی نہیں
میں اپنے آپ سے اب تک کبھی ملا ہی نہیں
اس المیہ سے بڑا کوئی المیہ ہی نہیں
کرکے احسان یوں جتانا کی
جو کمایا اسے گنوانا کیا
خواہشوں حسرتوں امیدوں کا
میرا دل بن گیا ٹھکانہ کیا
ذندگی کی ہزار شرطیں ہیں
اس کی ہر شرط ہم نبھانا کیا
محبت ہمسفر ہے اور میں ہوں
یہی ذاد سفر ہے اور میں ہوں
نہیں ہے بوجھ سر پر خواہشوں کا
اثاثہ مختصر ہے اور میں ہوں
ردیفوں قافیوں کی قید کیسی
غزل پیش نظر ہے اور میں ہوں
بہت مفید ہے نسخۂ یہ آدمی کے لئے
حلال رزق ضروری ہے ذندگی کے لئے
پرے ہے جو بہت فہم و گماں سے
ہمیں ملتا ہے سب کچھ بس وہاں سے
ندی نالوں کی ہے اوقات کتنی
ہمیں نسبت ہے بحر بیکراں سے
مزاحیہ کلام
بھوک و افلاس کا نیتاوں نے ڈھونڈا ہے علاج
راج نیتی کا مرے دیش میں جال اچھا ہے
دے کر اک سیب جنم دن پہ مریض غم کو
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے "
سارا دن آج وہ شاپنگ میں گزار آئی ہے
بیوٹی پارلر سے بہت خود کو سنوار آئ ہے
گھر کو دفتر سے جو لوٹے تو یہ معلوم ہوا
" ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئ ہے "
ادھر جاری عبادت ہے ادھر رشوت بھی جاری ہے
ہے ماہر لوٹنے میں اور خدا کا ڈر بھی طاری ہے
ہے ایسا حال کیوں پوچھا تو اس نے یوں کہا مجھ سے
" یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے"
جب سے پینشن ہوا کرلیتا ہوں گھر کے سب کام
بچے سرونٹ کا خرچہ نہیں ہونے دیتے
واچ مین نائٹ کا ہوں آج بھی اپنے گھر ک
" میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے"
غزل
غالب کا رنگ میر و ظفر کی زمین ہے
ہر شعر اس غزل کا بڑا دلنشین ہے
میری غزل نہیں ہے مجھے بھی یقین ہے
جس نے غزل کہی ہے وہ گوشہ نشین ہے
کہتا ہے سرخ وائٹ کو ریڈ کو گرین ہے
بچہ ہمارے دور کا ہم سے ذہین ہے
اردو میں رشتہ جوڑنے والی ہے مشاطہ
انگلش میں اس کا ترجمہ ویلڈنگ مشین ہے
کیسے ملیں گے عاشق و معشوق اے ضیاء
جب درمیان دونوں کے دیوار چین ہے
****
مضمون نگار: ڈاکٹر رضی شطاری، بانی و مہتمم بزمِ شاعری، نظام آباد
" وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں" کی رسم اجرا کے موقع پر موجودہ رکن اسمبلی بودھن محترم شکیل عامر صاحب نے تہنیت پیش فرمائی۔
نثری تصنیف" زیر، زبر، پیش" کی رسم اجرا کے موقع پر لی گئی ایک تصویر۔ جناب محمد علی شبیر و جناب محمد فرید الدین معزز وزراء متحدہ آندھراپردیش و اس وقت کے رکن اسمبلی بودھن جناب پی۔ سدرشن ریڈی و دیگر معززین شہر دیکھے جاسکتے ہیں۔ایک کل ہند یادگارمشاعرہ کا انعقاد بھی عمل میں آیا تھا۔
No comments:
Post a Comment