مرتضی ساحل تسلیمی ایک عہد کے مربی
اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے ملک اور شہر پہنچانے جاتے ہیں،بعض وہ ہوتے ہیں جن سے معاشرہ کی پہچان ہوتی ہے اور بعض وہ جن سے ادارے اور شعبے متعارف ہوتے ہیں۔
جناب مرتضی ساحل تسلمیؒ کی شخصیت ایسی ہے جن سے یقینا بچوں کا ادب پہچانا جائے گا۔
ابھی کچھ دیر قبل میرے مربی و کرم فرما جناب مرتضی ساحل تسلیمی کے سانحۂ ارتحال کی روح فرسا خبر موصول ہوئی،بلاشک خبر سن کر گویا جسم کا ذرہ ذرہ ماتم کناں ہوگیا۔زبان و قلم کو یارائے سخن نہیں، طبیعت میں اضطراب و بےچینی ہے اور جی یہی کہہ رہا ہے کہ
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کومیں
عنفوان شباب ہی میں ادارہ الحسنات رامپور میں ایک معمولی سے ملازم کے طور پر جڑنے والے مرتضی ساحل تسلیمی کی زندگی کے کئی پہلو ہم سب کی حیات مستعار کے لیے سبق آموز اور قابل رشک ہیں۔نصف صدی قبل اس معمولی سے ملازم کو ادارہ الحسنات رامپور کے صاحب بصیرت افراد نے چشم دل سے دیکھا اور اس گوہر نایاب کی قیمت کا اندازہ لگایا جس سے ہزاروں اور لاکھوں گداٶں کے کشکول علم و فن گہر پاروں سے بھرنے والے تھے۔
اللہ اللہ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ لوگ پندو نصائح کو تو اشاعت دین سمجھتے ہیں لیکن دلوں کے تاروں کو چھیڑنے والی ان تحریروں کو ابلاغ دین سے کوسوں دور تصور کرتے ہیں۔حالاں کہ قلم سے نکلی ان ہی سیاہیوں میں مصنف اپنا خون جگر پیش کرتا ہے اور ہزاروں مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونکتاہے۔
ہمارے محبوب اور بہت ہی محبوب محترم مرتضی ساحل تسلمیؒ نے نصف صدی سے زیادہ اسی قلم سے فکروفن اور تعلیم وتربیت کو رواج دیا اور کئی نسلوں کی ذہنی و فکری تربیت کی۔
ہائے اللہ! آخر پیارے پیارے نوریوں سے اب کون پیاری پیاری باتیں کرے گا! ریڈیو نورستان کے خوبصورت پروگرام کے لیے کہاں کا رخ کریں! اور وہ نور نگری کے قاری نورالرحمن کی پیاری پیاری تلاوت ریڈیو نورستان کے آغاز پر کیوں کر سنیں۔اور پھر ساحل صاحب کے پیار بھرے خطوط ہم تک کون پہنچائے!
نسلوں کے مربی اور دنیائے ادب اطفال کے بے تاج شہنشاہ ہم سب کو سوگوار کرکے رخصت ہوئے۔لیکن وہ اپنی تحریریں اور بچوں کے لیے ہزاروں تربیتی اور اخلاقی کہانیاں ہم سب کو وراثت میں دے گئے۔اب نسل نو کی تربیت کے لیے ان کو ہر نئے زاویے کے ساتھ سامنے لانا چاہیے اور ان شاءاللہ ہم سب اس کے لیے پوری طرح مستعد اور کمر بستہ ہوں گے۔
ادارہ ادب اطفال بھٹکل اور ماہ نامہ پھول بھٹکل اپنے لیے یہ اعزاز تصور کرتا ہے کہ ان کا گہرا تعلق ساحل صاحب سے روز اول سے رہا بلکہ وہ ہمارے سرپرست بھی تھے۔پھول کے سب سے پہلے شمارے میں بھی ان کا انٹریو شائع ہوا۔آج تک پھول کا کوئی شمارہ ان کی تحریروں سے خالی نہیں رہا۔ان کی مشہور قسط وار کہانیاں ”جلوس“ اور ”بھولو راجا“ نئے ڈھنگ اور انداز میں شائع ہوئیں۔ انھوں نے ”نور“ کے مکمل شماروں کو بچوں کی مولانا عبدالباری لائبریری کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا اور اس پر عمل کرتے ہوئے ماہ نامہ نور کے کئی شمارے جلد بنا کر بذریعہ پوسٹ بھیجنے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ادارے کے ہر نئے کام کے آغاز پر ان کے خطوط اور واٹس ایپ کے ذریعے ان کے ہمت افزا پیغامات اور مشورے ہمارے لیے کسی سرمائے سے کم نہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے تفصیل سے بات ہوئی تھی،انھوں نے آخری بار لاک ڈاون کے دوران میں منعقد ہوئے ہمارے معمولی پروگراموں پر جن جذبات اور اپنے دلی احساسات کا اظہار کیا ان کو دہرانے کی اس عاجز میں ہمت نہیں۔اللہ ان کے حسن ظن کی لاج رکھنے کی ہمیں توفیق دے۔
ان کے پیغام کو عام کرنے کے لیے ادارہ ادب اطفال ہر ممکن کوشش کرے گا اور
ان شاءاللہ ان کی حیات و خدمات اور ان کی تحریروں کی روشنی میں ایک دستاویزی مرتضی ساحل تسلیمی نمبر شائع کرے گا۔
ادارہ ادب اطفال بھٹکل اس غم ناک موقع پر ادارہ الحسنات اور مرتضی ساحل تسلیمی کے تمام اہل خانہ کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہے۔اللہ مرحوم کو اعلی علیین میں جگہ دے اور ملت کوان کا نعم البدل عطا کرے۔آمین!
*****
عبداللہ غازی ندوی، مدیرماہنامہ " پھول" بھٹکل
No comments:
Post a Comment