محمد ایوب فاروقی صابرؔ: شخص اور شاعر
محمد ایوب فاروقی صابرشہر نظام آباد سے تعلق رکھنے والے کہنہ مشق شاعر ‘افسانہ نگار اور ادیب گزرے ہیں۔ بہ حیثیت ایمپلائمنٹ آفیسر عادل آباد سے ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ لیکن اپنے وطن نظام آباد میں ملازمت کا طویل عرصہ گذارا۔ انجمن ترقی اردو شاخ نظام آباد کے سرگرم کارکن رہے۔ نظام آباد میں قیام کے دوران شعری اور ادبی محفلوں میں شرکت کرتے رہے۔وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد ٹولی چوکی حیدرآباد میں مستقل سکونت اختیار کی۔ اردو شاعری سے انہیں فطری مناسبت رہی۔ اور بچپن سے ہی شعر گوئی کا سلسلہ جاری رکھا۔ ادبی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں ڈگری کالج ورنگل کے کالج میگزین کے ایڈیٹر رہے۔ بعد میں مقامی ہفت روزہ و سہ ماہی اخبارات و رسائل میں مضامین لکھتے ہوئے صابر نے اردو ادب کی گراں بہا خدمات انجام دیں۔
جامعہ عثمانیہ میں تعلیم کے دوران حیدرآباد کا ادبی ماحول دیکھا۔ کچھ عرصہ ایم اے اردو میں بھی داخلہ لیا تھا۔ اس وقت پروفیسر مسعود حسین خان جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردو کے صدر تھے۔ اور پروفیسر سیدہ جعفر اور پروفیسر اشرف رفیع رفقاءمیں تھے۔مخدوم کو کلام سناتے ہوئے دیکھا اور شاذ تمکنت کی شاگردی میں بھی رہے۔ ملازمت کی جستجو میں اعلیٰ تعلیم جاری نہیںرکھ سکے۔محمد ایوب فاروقی صابر کا ایک شعری مجموعہ” آخر شب کے ہمنشیں“ شائع ہوکر مقبول ہوا۔ اس شعری مجموعے کی رسم اجراءکے موقع پر عادل آباد میں ایک عظیم الشان مشاعرہ‘ ادبی محفل‘محفل افسانہ اور محفل لطیفہ گوئی منعقد کی۔ جو عادل آباد کی ادبی تاریخ کی ایک یادگار ادبی محفل تھی۔ مشاعرے میں نامور شاعر منشا الرحمٰن خان منشاءنے ناگپور سے شرکت کی۔ اور کتاب کا رسم اجراءانجام دیا۔
محمد ایوب فاروقی صابر نے اپنے شعری مجموعے ” آخر شب کے ہمنشیں“ کا انتساب اپنے والد مرحوم محمد اسمٰعیل فاروقی کے نام کیا اور لکھا کہ والد کی تربیت نے انہیں ادب کو زندگی میں اور زندگی کو ادب میں برتنے کا سلیقہ سکھایا۔شعری مجموعے کا تعارف سید واحد علی واحد ڈپٹی کمشنر آف لیبر مہاراشٹرا نے لکھا۔ جو صابر فاروقی کے ماموں ‘یوسف ناظم کے رفیق کار اور نظام آباد کے سینئیر شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ سید واحد علی واحد صابر کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ” انہوں نے روایت اور جدت کے امتزاج کے ساتھ شاعری کی۔ اور اپنی شاعری میں سیاسی ‘سماجی اور معاشرتی عوامل کا بھی اظہار کیا“۔ صابر فاروقی کے کلام پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا کلام کلاسکیت اور جدیدیت کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے پابند اور بلینک ورس نظمیں کہیں ہیں۔ ان کی نظموں میں عصری حسیت اور معاشرتی شعور ملتا ہے۔ میر کی طرح چھوٹی بحروں میں انہوں نے بہت اچھی نظمیں اور غزلیں کہی ہیں۔ اپنی نظموں میں قومی یکجہتی‘وطن سے محبت‘اور سماجی نشیب و فراز کو پیش کیا۔ ان کی شاعری میں رومانیت اور عصر حاضر کا شعور دیکھا جاسکتا ہے۔شعری مجموعہ” آخر شب کے ہمنشیں “ کا آغاز روایتی انداز میں حمد اور نعت سے ہوتا ہے۔ اپنی حمد میں صابر اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کے قلم‘خیال اور فکر کو مزید جلا عطا کرے؎
قلم سے علم سکھایا ہے تو نے صابر کو
قلم کو جز مرے کس نے دیا ہے زور بیاں
نعتیہ نظم” ذکر خیر البشر“ میں صابر نے نعت گوئی کے آداب کا لحاظ کرتے ہوئے خیر البشر ہستی پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اوصاف حمیدہ بیان کئے ہیں؎
پار کشتی ہوئی ساحل نور تک
بحر ظلمات میں ناخدا آپ تھے
رحمتوں کا احاطہ کوئی کیا کرے
ابتداءآپ تھے انتہا آپ تھے
وطن سے محبت کے نغمے اقبال اور چکبست نے بہت خوب پیش کئے۔ حب وطن کی شاعری نے ہرزمانے میں لوگوں میں وطن سے محبت کا جذبہ پروان چڑھایا ہے۔ صابر نے اردو شاعری کی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک نظم” نذر وطن “ لکھی۔ نظم کا ہر مصرعہ وطن کی محبت سے سرشار ہے۔ صابر کہتے ہیں؎
رنگ سے نور سے نکہت سے ہے پر صحن چمن
عید نظارہ ہوتی جاتی ہے پھر صبح چمن
نظم ”وشال آندھرا“ میں آندھرا پردیش کے قدرتی وسائل اور اس کے کھیت کھلیانوں کی تعریف کی گئی ہے۔شاعر نے آندھرا کے چاول کو گودام اور سونے کی چڑیا کہا ہے۔ اور یہاں کے فطری و قدرتی حسن و رعنائی کو موضوع بنایا ہے۔صابر کہتے ہیں؎
مرے وطن کو حسیں خوش جمال کہتے ہیں
یہ آندھرا ہے جسے سب وشال کہتے ہیں
اسے زمانے میں چاول کا تھال کہتے ہیں
سنہرے خوشوں کا سر سبز بالیوں کا چمن
وشال دیس ہے میرا وشال میرا وطن
نظم یو این او میں شاعر نے بین الاقوامی ادارے کی حقیقی تصویر پیش کی ہے کہ اس ادارے کے قیام کا مقصد عالمی امن کو یقینی بنانا ہے لیکن کیسے اس ادارے میں قول و فعل کا تضاد پایا جاتا ہے۔ صابر کہتے ہیں؎
اصولوں کی باتیں 000000000
دل میں لیکن وہی مصلحت کوشیاں
زخم انسانیت ہے ہرا کا ہرا
سب کے سب معتبر
ہاتھ میں سب کے سب زیتون کی ٹہنیاں
آستینیں بھی اپنی الٹ کر بتائیں تو جانیں
نظم ”تیری میری آس وہی ہے “ میں صابر نے ہندوستان میں پائے جانے والے ذات پات کے نظام اور ہریجنوں سے ہونے والے بھید بھاﺅ کو جذباتی انداز میں یوں پیش کیا ہے؎
سورج سونا بکھراتا ہے تیرے گھر بھی میرے گھر بھی
خوشبو کا جھونکا آتا ہے تیرے گھر بھی میرے گھر بھی
چاند آنگن میں اتراتا ہے تیرے گھر بھی میرے گھر بھی
انسان جانے کوئی نہ جانے یہ دوجا وہ ہرجائی ہے
یہ اپنا ہے وہ بیگانہ ہے یہ ہے پرایا وہ بھائی ہے
صابر کی دیگر نظموں کے عنوانات تو کیا ہے،مسافت،چپ کا پہرہ، واپسی، کتبے، پندرہ
اگسٹ۔UNO،کراس روڈ،برادر نامہ، مفہوم، تیری میری آس وہی ہے، آخر شب کے ہمنشیں،رقص شرر،شورہ،نیا موڑ، عکس بھی قصہ، وجہہ ندامت،بوڑھی آیا،لقمہ تر،دوسرا سفر وغیرہ ہیں۔صابر کی نظموں میں فنی ارتقاءمحسوس کیا جاسکتا ہے۔ اور اپنے دور کے تاریخی اور تہذیبی حالات سے آگہی محسوس کی جاسکتی ہے۔ نظموں کی طرح صابر کی غزلیں بھی فکر و فن کا حسین امتزاج ہیں۔ اور ان میں جدیدیت اور کلاسیکیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔غزلوں میں اردو غزل کے روایتی عشقیہ موضوعات کے ساتھ سیاسی و سماجی مسائل کی عکاسی ملتی ہے۔ غزلوں کا اسلوب رومانی ہے۔محبوب کی تڑپ اور اس کے دیدار کا کرب پایا جاتا ہے۔ فیض کی طرح یایہاں محبوب کی آرزو روایتی نہیں۔ سماجی اور معاشرتی مسائل کا ادراک وصل محبوب بن جاتے ہیں۔ صابر کے ہاں پائے جانے والے عشق کے کچھ رویے اس طرح ہیں؎
ایسا بھی راہ شوق میں اک سانحہ ہوا
خود سے گذر گیا ہوں انہیں پوچھتا ہوا
پردہ رخ سے جو سرک جائے تو خیر
چاند آنکھوں میں جھمک جائے تو خیر
پھر آپ کے آجانے کا امکان ہوا روشن
پھر میرے تصور نے دروبام تراشے
صابر کی غزلوں سے منتخب یہ متفرق اشعار ان کے مختلف شعری رویوں کی عکاسی کرتے ہیں؎
یہ شہر کیسا شہر ہے یہ قہر کیسا قہر ہے
جس شہر میں بدنام میں اس شہر میں شہر ترا
ڈبو بھی دیتا ہے وہ کشتی ساحلوں سے قریب
پھر اپنے آپ کو وہ ناخدا بھی کہتے ہیں
سب جسے قابل گردن زدنی کہتے ہیں
کیا عجب ہم میں وہ ایک شخص ہی سچا ہوگا
بارش کے اس بہتے پانی کی ہو یارب عمر دراز
اس میں کاغذ کی کشتی چھوڑ گیا کوئی بچہ
صابر کے بعض اشعار میں اشاروں کنایوں میں بات ملتی ہے۔ صنعت تضاد اور مراءة النظیر کو انہوں نے فنکاری سے برتا ہے۔ صابر فاروقی مشاعروں کے شاعر نہیں ہیں۔ نظام آباد میں منعقدہ یادگار کل ہند مشاعرے میں انہوں نے مقامی شاعر کے طور پر کلام سنایا تھا۔ اور کیفی اعظمی نے ان کے کلام پر بھر پور داد دی تھی۔ ان کی غزلوں کو مقامی گلوکاروں نے اپنی آواز دی۔ صابر فاروقی کو فن عروض پر مہارت حاصل تھی۔ نوجوان شعرا ان سے اپنے کلام کی اصلاح بھی لیتے تھے۔ صابر فاروقی کی شاعری سے نئی نسل فیضیاب ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان کی شاعری میں مسرت کے ساتھ بصیرت بھی ہے۔ افسوس یہ مایہ ناز ادیب و شاعر12ِ نومبر 2018ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملا۔
اللہ سبحان تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے ۔ آمین
****
مضمون نگار: ڈاکٹر محمد ناظم علی، موظف پرنسپل موڑتاڑ جونیر کالج
None of it ever bet365 seemed or felt like much of an issue to him—that is, till the pandemic. The earlier 12 months, his residence state of Illinois had legalized sports betting and expanded on line casino gambling, flooding the state with commercials. It didn’t take long earlier than Jason was listening to about gambling “all day every single day,” he said. When he began to go through personal points at residence in 2020, he found himself on the on line casino attempting to burn off some steam.
ReplyDelete