ضیائے قمر: عبدالرحیم قمرؔ - My city Nizamabad | Info on History Culture & Heritage | Urdu Portal | MyNizamabad.com

9.10.20

ضیائے قمر: عبدالرحیم قمرؔ



 ضیائے قمر: عبدالرحیم قمر

 (شعری مجموعہ "روشنی کا سفر" کے آئینے میں)

*****
اہلیانِ نظام آباد کے کے لئے قمر برادران محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ ادب، صحافت و سیاست میں ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔جناب عبدالرحیم قمر ادب کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں توجناب نعیم قمر عوام ٹی وی نیوز کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی علحیدہ شناخت رکھتے ہیں جبکہ جناب حلیم قمر، سنیر ٹی آر ایس قائد ہیں وہ ڈائرکٹر مارکیٹ کمیٹیی کے با وقار عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔جناب عبدالرحیم قمر کا پہلاشعری مجموعہ "روشنی کا سفر" شائع ہو کر ادبی دنیا میں پزیرائی حاصل کرچکا ہے۔نظام آباد کی ادبی سرگرمیوں کو جلا بخشنے میں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔جب قا فلہ ادب نظام آباد کی تشکیل ہوئی تھی توانہوں نے اس ادبی انجمن کی بنیادوں کو مستحکتم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اس کے ساتھ ساتھ وہ کہکشاں سوسائٹی، ادارہ گونج، دائرہ ادب ، مرکز ادب، گلستان اردو ادب کی خونِ جگر سے آبیاری کی ہے۔ان دنوں وہ ادارہ ادب اسلامی سے وابستہ ہیں۔ ممتاز ادیب و شاعر ڈاکٹر محسن جلگانوی کا لکھا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔

مجید عارف


*************

 ارض دکن پچھلی پانچ صدیوں سے زبان اردو کی پرورش کرتی رہی ہے، عہدقطب شاہی کا اہم ترین شاعرمحمد قلی قطب شاہ جو گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت کا پانچواں فرمان روا تھا اور جس کے عہد حکومت کو قطب شاہی دور کا سنہرا دور کہا جا تا ہے ۔ اس نے اردو شاعری کومستحکم بنیادیں فراہم کیں اس نے اپنی شاعری میں حمد مناجات مرثیہ منقبت سے قصيده ورباعیات اور مثنوی جیسی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزل اس کی محبوب صنف سخن ہے۔
 اس کی غزلوں کی یہ خصوصیت رہی کہ ان میں نظموں کے موضوعات کو "غزل مسلسل"  کا نام دیا جاسکتا ہے ڈاکٹرمحی الدین قادری زور اور پروفیسر سید ہ جعفر نے قلی کی بیشتر غزلوں شاعری کو عنوانات دے کرنظمیں قرار دیا ہےقلی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دبستان دکن میں عہد قطب شاہی کے شعراء میں سب سے بڑا شاعر قرار دیا گیا اور وہ اردو زبان کا پہلا صاحب دیوان شاعرشہرا۔
 قلی قطب نے جس 'غزل مسلسل' کی بنیاد رکھی تھی ۔ اس کے نقوش آج بھی ہمیں ان کی اپنے عصر حاضر کے شاعروں کے کلام میں دیکھنے کو ملتے ہیں ان میں سے ایک شاعرمحمد عبد الرحیم قمؔر بھی ہیں جنہوں نے اپنی بعض غزلوں کواسی تکنیک میں آزمایا ہے۔ 
 رحیم ،قمرالدین صاحب کے گھر جولائی 1955ء کو شہر حیدرآباد میں تولد ہوئے اس اس طرح شهر فرخندہ بنیاد حیدرآبادان کا مسکن مالوف ٹھہرا۔ ان کے والد پیشہ تجارت سے وابستہ تھے اس دور میں ووہ بغرض تجارت نظام آباد منتقل ہوئے اور اپنے آخری ایام تک وہیں رہے۔رحیم قمر کے ادبی نام میں قمرکا لاحقہ انہیں سے منسوب ہے۔ اپنے والد کی طرح انہوں نے بھی تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا اور نظام آباد کو مستقل مسکن قرار دیالیکن حیدرآباد سے ان کے ادبی سماجی رشتے باقی و برقرار ہیں۔ 
 رحیم قمر کا نام ادبی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ۔جب قا فلہ ادب نظام آباد کی تشکیل ہوئی تھی توانہوں نے اس ادبی انجمن کی بنیادوں کو مستحکتم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اس کے ساتھ وہ کہکشاں سوسائٹی، ادارہ گونج، دائرہ ادب ، مرکز ادب گلستان اردو ادب و دیگر اداروں سے تال میل و تعاون کرتے رہے ہیں۔ان دنوں وہ ریاست تلنگانہ کی انتہائی کارگر دانجمن ،ادارہ ادب اسلامی ہند سے اب منسلک ہیں۔
 ہمارے اکثر شاعر جو ایک دو شعری نشستوں میں شرکت کے ساتھ ہی سامع سےشاعر بن جانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں کہ بر خلاف رحیم قمر نے تقریبا بیس سال تک شعروادب  کی محفلوں میں شرکت کے ذریعہ اکتساب علم وادب کیا اور پھر تنویر واحدی جیسے متماز شاعر کے ذریعہ شعر گوئی کی ابتداء کی۔ تنویر واحدی بذات خود بہت اچھے شاعر اور بہترین ناظم مشاعرہ تھے ان کی معیت و نگرانی میں انہوں نے اپنے ادبی سفر کی ارتقائی منزلیں طے کیں۔ ان کی یہ بھی خوش قسمتی رہی کہ اس پورے عرصہ میں نظام آباد کی سرزمین پرا نہیں کہنہ مشق شاعروں ادیبوں اور صحافیوں کی رفاقتیں ملیں ۔ ان میں اکثر لوگ ایسے تھے جنہوں نے ان کی ہمت افزائی کی ان میں ایک بہت اہم نام محترم سوزؔ نجیب آبادی کا ہے جنہیں زبان و بیان اور علم عروض پردسترس حاصل ہےاور عہد حاضر میں نظام آباد میں ان کی موجودگی ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔رحیم قمر نے ان کے آگے زانوئے ادب تہہ کر کے اپنے روشن مستقبل کی منزل متین کرلی۔توقع ہے کہ وہ اس راہ میں آسانیوں سے گزر جائیں گے۔
  رحیم قمر کے پسندیدہ اصناف سخن میں حمد، مناجات، نعت پاک، نظم اور قطعات ہین لیکن ان کا غالب رحجان غزل کی جانب رہاہے۔ ان کی کتاب "روشنی کا سفر"میں شامل اشعار نے چونکا دیا؎
 بضد ہیں آج ہوائیں دیئے بجھانے کو 
مرادیا تو خد کے کرم سے جلتا ہے 

حالات کی یورش سے پتہ بھول کے شاید 
وحشت مرے دروازے پہ برسوں سے کھڑی ہے

چاہتے ہو مکان شیشے کا 
پتھروں کا بھی خوف طاری ہے

 ابربرسا تو سمندر سے یہ آواز آئی
 ان ہی قطروں نے بنایا ہے سمندر مجھ کو

 اس دل آویز لہجے کے اشعار نے مزید مطالعہ کے لئے اکسایا ہے تو انکشاف ہو کہ ان کی شاعری صرف دو اور دو چار کی شاعری نہیں ان کے یہاں مختلف الجہت موضوعات و مضامین کی کہکشاں جگمگارہی ہے۔ ایک حساس ادیب و شاعر جس عہد میں سانس لیتا ہے اپنےاحساس کے انفرادی اظہار کی وجہ سے اپنے عہد اور عالم انسانیت کا ترجمان بن جاتا ہے جو اس کی انفرادیت کی بنیاد اس کی سوچ وفکر پر مبنی ہوتی ہے جو اسے اپنے ماحول میں شامل رکھنے کے با و جو گم ہونے سے بچائے رکھتی ہے۔
 نامور نقاد سلیم احمد نے عصری حسیت کی تشریح کے باب میں کہا تھا کہ اگر آپ عصری تقاضوں سے انحراف کریں گے تو ہم سمجھیں گے کہ آپ کی فکر کہیں سے منقطع ہے۔ عصری تقاضہ یہ ہے کہ ان مسائل کا اظہار ہو جو مسائل موجودہ سارے علوم و تجربات سے ایک نئی شکل میں نمودار ہورہے ہیں اس تناظر میں شاعر کے مندرجہ ذیل اشعار کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے۔ رحیم قمر آگہی سے منقطع ہے نہ عصری مسائل سے ۔اشعار ملاحظہ ہوں؎
 تم نے تاریخ ہی بدل ڈالی
 زہر ہی بھر دیا کتابوں میں
 آف ہی دہشت کے نام پر وحشت 
 پوری اک قوم ہے عذابوں میں
 ملک دشمن مجھے کہہ کر جو پکارا تھا قمر
 زہن سے میرے زمانے کی وہ گالی نہ گئی 
 رگوں میں خون جو باقی بچا تھا
 وہ قسطوں میں بہایا جارہا ہے 
 موت کا خوف قمر ہم کو بھلا کیا ہوگا 
سرتو پہلے ہی سے نیزوں پر چڑھا رکھا ہے
 آج جن حالات سے ملک گزر رہا ہے اور اقلیتوں پر جو افتاد پڑی ہے اسی کا یہ منظرنامہ ان اشعار میں بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ 
پروفیسر آل احمد سرور نے عصری حسیت کے بارےمیں بڑے مدبرانہ انداز میں ایک بات کی تھی کہ عصری احساس عقلیت کے کٹر پن میں جواسے محسوس کرے گا اور عقل کی نارسائی کو بھی مگر عقل کو خیر آباد نہیں کہہ دے گا۔رحیم قمر نے اپنے عصری احساس کی ترجمانی میں ایک رخے پن سےدامن پایا ہے اور اپنے اظہار کو جارحانہ احتجاج اور برہنہ گفتاری سے محفوظ رکھا ہے۔ رحیم قمرکی مختلف الجہت شاعری میں ایک اہم عنصر مذہب کا بھی ہے لیکن انہوں نے اس موضوع پر گفتگوکرتے ہوئے کھڑ پن اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے طنز کے نشتر کو زہر کے بجائے شہد میں بجھایا ہے۔ ان کے شعروں میں قوم وملت سے دردمندی کا عنصر نمایاں طور پر چھلکتا ہے؎
 اختلافی مسائل میں الجھے رہے
 وہ سوالات میں ہم جوابات میں 
 مسند و تاج سے وہ نوازے گئے
 عمر جن کی کٹی تھی حوالات میں
 ریا کاری ہے دین داری نہیں یہ
 بتا سر پر یہ کج دستار کیوں ہے
 الفت کے دکھانے کو عمل بھی ہے ضروری
 جزدان میں رکھنے کو یہ قرآن نہیں ہے
 شاعر کے یہاں قومی منظر کے علاوہ بین الاقوامی تناظر کے موضوعات شکست و ریخت کا منظر منتشری، فتنہ، فساد، عصر حاضر پیچیدہ صورتحال، مایوسی ، ہراسانی، فرقہ واریت اور غیر محفوظیت کے مسائل و موضوعات وافر تعداد میں موجود ہیں ۔ جس کی مزید تفصیل | ضروری نہیں، امید ہے کہ جب قاری اس مجموعے کی قرأت کرے گا تو اس پر خوش گوار انکشافات کے کئی در، واہوں گے۔ 

******
مضمون نگار: ڈاکٹر محسؔن جلگانوی، حیدرآباد

No comments:

Post a Comment