ممتاز شاعر :ضیاؔء جبلپوری مرحوم
ضیا جبل پوری جن کا پورا نام محمد ضیا الدین ہے یکم ڈسمبر1932ءکو حضرت جگر مراد آبادی کے وطن مراد آباد (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب محمد ناصرالدین مشہور حکیم تھے۔ ضیا صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ انٹر میڈیٹ کے بعد محکمہ ریلوے سے وابستہ ہوگئے اور برس تک نظام آباد ضلع میں مقیم رہے تھے۔ اور یہاں کی ادبی سرگرمیوں میں شریک رہتے تھے۔ بحیثیت اسٹیشن ماسٹر کاماریڈی وظیفہ حسن خدمت پر ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ کاماریڈی (ضلع نظام آباد) ضیا جبل پوری صاحب کا وطن ثانی ہوگیاتھا۔
ضیا صاحب کو بچپن ہی سے اپنے اطراف شعری ماحول ملاتھا۔ آپ اس ماحول سے بچ نہ سکے تھےاور طالب علمی کے دور ہی سے شعر کہنے لگے ۔ آپ کی تخلیقات ملک اور بیرون ملک کے رسائل وجرائد میں مسلسل چھپتی رہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی میں بھی لکھتے تھے۔ آپ کے کلام کا انتخاب "بیاضِ فکر" کے نام سے 1982میں شائع ہوا تھااور اس مختصر سے تعارفی مجموعہ کو اردو والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔
ممتاز شاعر ڈاکٹر محبوب راہی نے ضیا صاحب کے کلام پراپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ضیا صاحب نے جدیدت کو فیشن اور فارمولے کے طور پر نہیں اپنایا ہے تقلیدیوں کی طرح موضوعات اور علامات کی جگالی سے پرہیز کرتے ہوئے وہ جدید تقاضوں کو سمجھنے کا شعور رکھتے ہیں۔ زندگی کی پیش آئندہ مسائل کی کچھ گہرائیوں میں اترتے ہیں۔ عصری حسیت سے واقف ہیں۔ تغیرات روز شب پر ان کی نگاہ ہے ۔ انکا سماجی شعور بیدار ہے وہ جدید تقاضوں کو سمجھنے اور پرکھنے کے لئے بصیرت اوربصارت دونوں سے بہرہ مند ہیں۔
۔ضیاصاحب مبہم علامات ، مہل اشارات بعیداز قیاس واقعات ناقابل فہم اور دُوراز کار پیچیدہ طرز بیان عجیب وغریب نامانوس اور بے ہنگم الفاظ اورجناتی زبان کو جوڑتوڑ کر اپنی شاعری پر نام نہاد جدیدیت کا لیبل لگانے کی بجائے صالح روایات کی زرخیر مٹی پر جدید اشعار کے رنگارنگ گل بوٹے کھلائے تھے۔ الفاظ ومعانی تک ان کی رسائی ہے۔
ڈاکٹر محبوب راہی صاحب کے ان خیالات سے مکمل طور پر اتفاق کرتے ہوئے ضیا صاحب کے تعلق سے اپنی طرف سے بس اتنا ہی کہوں گا کہ ضیا صاحب ابتدا ہی سے میرے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔ مجھے ہمیشہ ان سے مل کر اور ان کا کلام سن کر خوشی اور تازگی کا احساس ہوتا تھا۔
یہ بات میرے لئے باعث افتخار ہے کہ ان کے مجموعہ کلام "کوہِ نور" کی اشاعت گونج پبلکیشنز کے زیر اہتمام عمل میں آئی تھی۔
مختصر سی علالت کے بعدضیاء جبلپوری15 /اکٹوبر 2005 ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔
ضیاء جبلپوری صاحب کے منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں:
خشک ہونٹوں پہ تبسم تو سجارکھا ہے
گرد آنکھوں کے جو حلقے انھیں کیا کہئے
روایتوں کے سمندر گھنگاتے چلئے
ہیں جو سیپ میں موتی نکالتے چلئے
ہوا کا تیز جھونکا کہہ گیا ہے
تمہارے پاس اب کیا رہ گیا ہے
دھوپ دی ہے توئباں بھی دے
جو ہیں بے گھر انہیں مکاں بھی دے
پھول عریاں بھی ہے ملبوس میں مستور بھی ہے
اس سلیقے سے کسسے جامہ دری آوے ہے
ان کے دامن ہیں سلامت تو نہ فرزانہ سمجھ
چند دیوانوں کو بھی بخیہ گری آوے ہے
انقلابات نے ظالم کو بنایا منصف
مظلوم کو دُروں کی سزائیں دی ہیں
ہمارے ظرف کی وسعت کہ پاس عہد وف
ا
فریب کھائے ہوئے ہیں فریب کھانا ہے
آرام گیا ،
نیند گئی صبر وسکوں بھی
کیا ہم پہ کوئی قہر خدا ٹوٹ رہا ہے
مہکے ہوں پھول جیسے کہیں لاشعور میں
یوں آرہی ہے
آج کسی گلبدن کی یاد
آگ پانی میں لگا کردیکھیں
اُس کو آئینہ دکھا کر دیکھیں
میں نے سیرابی کی لذت پائی ہے
اے ندی تجھ کو بتا کیسا لگا
*****
مضمون نگار:جمیل نظام آبادی۔ یم اے
مدیر گونج نظام آباد
No comments:
Post a Comment